نئے بجٹ سے متوسط طبقے کی امیدیں

0

ڈاکٹر جینتی لال بھنڈاری

16جولائی کو وزیرخزانہ نرملا سیتارمن کی موجودگی میں مرکزی بجٹ2024-25کے لیے بجٹ کی تیاری کے عمل کا آخری مرحلہ روایتی حلوے کی تقریب کے ساتھ شروع ہوا۔ یہ امید کی جارہی ہے کہ سال2012-13کے بعد مہنگائی کے حساب سے انکم ٹیکس دہندگان اور متوسط طبقے کوراحت نہیں ملی ہے، اب وزیرخزانہ نئے بجٹ کے ذریعہ انکم ٹیکس دہندگان اور متوسط طبقہ کی قوت خرید بڑھا کر ڈیمانڈ میں اضافہ کرکے معیشت کو متحرک کرنے کی حکمت عملی پر آگے بڑھتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ متوسط طبقہ کو راحت فراہم کرنے کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر کورونا وبا کے بعد۔ حکومت نے گزشتہ سالوں میں جہاں غریب لوگوں کے لیے کافی راحت کا اعلان کیا، وہیں کارپوریٹ ورلڈ پر بھی حکومت نے توجہ دی۔ لیکن راحت پانے کے مدنظر سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا متوسط طبقہ پیچھے رہ گیا۔18ویں لوک سبھا انتخابات کی ووٹنگ میں بھی متوسط طبقے کی ناراضگی نظر آئی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ متوسط طبقہ ملک کی ترقی کا محرک ہے اور متوسط طبقہ کیسے کچھ بچت میں اضافہ کرسکے اور متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگی کو کس طرح آسان بنایا جا سکتا ہے، اس تناظر میں حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھا جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ اس مکمل بجٹ 2024-25 کے وقت وزیر خزانہ سیتا رمن انکم ٹیکس کے حوالے سے مضبوط نظریہ رکھتی ہیں۔ گزشتہ10سالوں میں انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے والے انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد اور انکم ٹیکس کے حصول میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔2023-24 میں انکم ٹیکس ریٹرن ریکارڈ 8کروڑ کے ہندسہ کو عبور کرچکا ہے اور گزشتہ 10سالوں میں انکم ٹیکس ریٹرن فائلنگ دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ محکمہ انکم ٹیکس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال2013-14میں انکم ٹیکس کی وصولی تقریباً2.38لاکھ کروڑ روپے تھی۔ اس میں پھر تیزی سے اضافہ ہوا۔ یہ سال 2019-20 میں10.5لاکھ کروڑ روپے ہوگیا۔ کورونا کی مدت کی وجہ سے سال 2020-21 میں یہ گھٹ کر 9.47لاکھ کروڑ روپے پر آگیا۔ سال 2021-22 میں یہ 14.08کروڑ روپے، سال 2022-23 میں 16.64 کروڑ روپے اور سال2023-24میں19.58کروڑ روپے ہو گیا۔
ایسی صورت حال میں وزیر خزانہ سیتا رمن اپنی مضبوط مالی مٹھی سے انکم ٹیکس کے نئے اور پرانے دونوں سلیب کے انتظامات کے تحت ٹیکس دہندگان اور متوسط طبقے کو بے مثال راحت سے مستفیض کرسکتی ہیں۔ خاص طور پر تنخواہ دار طبقے کو فائدہ پہنچانے کے بھی خصوصی التزامات نئے بجٹ بھی نظر آسکتے ہیں۔ اس کے تحت معیاری کٹوتی(اسٹینڈرڈ ڈِڈکشن) کی حد کو50,000روپے سے بڑھا کر1لاکھ روپے کیا جا سکتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سال 2018میں معیاری کٹوتی کی حد40ہزار روپے تھی اور سال 2019میں اسے بڑھا کر50ہزار روپے کر دیا گیا تھا۔
نئے بجٹ کے تحت انکم ٹیکس سے متعلق مختلف ٹیکس چھوٹ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال سیکشن 80Cکے تحت1.50لاکھ روپے کی چھوٹ دستیاب ہے۔ اس کے تحت ای پی ایف، پی پی ایف، این ایس سی، لائف انشورنس، بچوں کی ٹیوشن فیس اور ہوم لون کی اصل ادائیگی بھی شامل ہے۔ مکانات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سیکشن80Cکے تحت2.5سے3لاکھ روپے تک کی چھوٹ دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح حکومت انکم ٹیکس ایکٹ کے سیکشن80Dکے تحت ٹیکس کٹوتی کی حد کو بڑھا سکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت سیکشن80Dکے تحت ہیلتھ انشورنس پریمیم پر ٹیکس چھوٹ میں اضافہ کر سکتی ہے تاکہ ٹیکس دہندگان ہیلتھ انشورنس کے تعلق سے ترغیب لیں۔ 80Dمیں ٹیکس چھوٹ کی حد کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ بزرگ شہریوں کے لیے خصوصی حد میں اضافہ کیے جانے سے لوگوں کو ہیلتھ انشورنس کرانے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔ پبلک پروویڈنٹ فنڈ(پی پی ایف) میں شراکت کی سالانہ حد موجودہ1.5لاکھ روپے سے بڑھا کر 3 لاکھ روپے کی جا سکتی ہے۔بلاشبہ ملک میں ٹیکس اصلاحات کی وجہ سے انکم ٹیکس کی وصولی میں توقع کے مطابق اضافہ ہوا ہے۔ لیکن فی الوقت انکم ٹیکس کے ٹیکس بیس میں اضافے کے بڑے امکانات ہیں۔ جہاں سال 2024-25کے بجٹ سے وزیرخزانہ انکم ٹیکس میں راحت سے متعلق تحائف دے سکتی ہیں، وہیں وہ بجٹ میں انکم ٹیکس کے دائرۂ کار کو بڑھانے کے لیے نئی حکمت عملی کا اعلان بھی کر سکتی ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق گزشتہ ایک سال میں تقریباً24لاکھ لوگوں نے 10لاکھ روپے سے زائد کی مہنگی کاریں خریدیں، گزشتہ ایک سال میں تقریباً25لاکھ لوگوں نے50لاکھ روپے سے زائد کے مہنگے گھر خریدے، سال2022میں ملک کے تقریباً 2.16 کروڑ لوگوں نے سیاحت کے مقصد سے بیرون ملک سفر کیا۔ اس طرح لوگوں کے پاس مناسب آمدنی کی وجہ سے ہی یہ خریداریاں اور غیر ملکی دورے ممکن ہیں۔ لیکن زیادہ آمدنی حاصل کرنے کے بعد بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد انکم ٹیکس ادا نہیں کرنا چاہتی۔ سال2023-24میں ملک کے140کروڑ سے زیادہ لوگوں میں سے صرف 2.79کروڑ لوگوں نے ہی انکم ٹیکس ادا کیا ہے۔ یعنی ملک کی صرف1.97فیصد آبادی نے ہی انکم ٹیکس ادا کیا ہے۔ ایسے میں انکم ٹیکس کا سارا بوجھ دو فیصد سے بھی کم آبادی کے ذریعہ برداشت کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں کل انکم ٹیکس ریٹرن کا تقریباً70فیصد انکم ٹیکس ریٹرن صفر انکم ٹیکس لائبلیٹی(Income Tax Liability)بتاتے ہوئے دکھائی دیے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ملک میں انکم ٹیکس کی وصولی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی)کے مقابلے میں صرف11.7فیصد ہی ہے۔ جبکہ یہ جرمنی میں 38فیصد، جاپان میں31فیصد، برطانیہ میں25فیصد، امریکہ میں25فیصد اور چین میں18فیصد ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کی60فیصد اور برطانیہ کی55فیصد آبادی انکم ٹیکس ادا کرتی ہے۔ دنیا کی بہت سی چھوٹی معیشتوں میں جمع ہونے والا انکم ٹیکس ان کی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالتا ہے۔
لہٰذا امید ہے کہ اس بار وزیر خزانہ نئے بجٹ میں ایسے لوگوں کی نشاندہی کے لیے نئی حکمت عملی کے ساتھ نظر آئیں گی،جس سے اصل آمدنی کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے اور لوگوں کے مالی لین دین کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کی جا سکیں۔ اس کے علاوہ جو لوگ اپنی اصل آمدنی سے کم پر انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان کی بھی نشاندہی کرکے انہیں مطلوبہ انکم ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ یقینا اس سے ملک میں ٹیکس وصولی میں اضافہ ہوگا اور معیشت مضبوط ہوگی۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS