چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے پیر کے روز چیف جسٹس آف انڈیا کا عہدہ سنبھال لیا ہے اور اس کے ساتھ ہی عدلیہ کے مستقبل کی سمت پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ ان کی مدت 13 مئی 2025 تک ہوگی اور اس دوران ان پر عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے،آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے اور حکومت کے دبائو سے آزاد رہ کر فیصلے کرنے کی اہم ترین ذمہ داری عائد ہوگی۔ چیف جسٹس کا عہدہ صرف عدلیہ کے انتظامی امور تک محدود نہیں، بلکہ پورے ملک کی آئینی جمہوریت کی حفاظت کا بھی ضامن ہوتا ہے،جس کے لیے ایک حساس اور غیرجانبدار رہنمائی کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس کھنہ کیلئے سب سے بڑی توقع یہ ہے کہ وہ عدلیہ کے فیصلوں میں غیرجانبداری اور شفافیت کو یقینی بنائیں گے، خصوصاً ’’ماسٹر آف دی روسٹر‘‘ کے طور پر،جس کے تحت چیف جسٹس یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس مقدمے کی سماعت کس جج کے پاس جائے گی۔ گزشتہ برسوں میں اس پوزیشن پر بعض اوقات اعتراضات اٹھائے گئے ہیں،خصوصاً جب حکومت کے خلاف مقدمات مخصوص ججز کے پاس منتقل ہوئے اور ان کے فیصلے حکومت کے حق میں تھے۔ ان کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ عدلیہ میں شفافیت کی نئی مثال قائم کریں۔
ججوں کی تقرری کے نظام میں بھی بہتری کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کے کالجیم کی کارروائیوں پر شفافیت کی کمی نے عدلیہ کے اندر اعتماد کو متاثر کیا ہے۔ چیف جسٹس کھنہ کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اس نظام کو مزید بہتر بنائیں تاکہ عدلیہ کی ساکھ کو عوام اور قانونی برادری میں دوبارہ بحال کیا جا سکے۔
چیف جسٹس کا عہدہ آئین کے محافظ کے طور پر کام کرنے کی بھی اہم ذمہ داری ہے۔ ہندوستان کا آئین جمہوریت کو مستحکم بنانے کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرنا چیف جسٹس کا بنیادی فرض ہے۔ اس عہدے کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اختیار کا استعمال صرف آئینی حدود میں کریں،نہ کہ ذاتی یا سیاسی پسند پر۔
چیف جسٹس کھنہ کے لیے ایک اور چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اپنے پیش رو،چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے طرز عمل سے سبق لیں اور عدلیہ کی آزادی کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوں۔ چیف جسٹس چندرچوڑ کی مدت میں عدلیہ نے کئی اہم فیصلے کیے،جن میں منی پور کی سیاست پر حکم اور حکومت کے فیصلوں کے خلاف مضبوط رائے شامل تھیں۔ تاہم،ان کے دور کے اختتام پر بعض فیصلوں نے عدلیہ کی خودمختاری اور طاقت کو متاثر کیااور اب جسٹس کھنہ سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ان مسائل پر توجہ دے کر عدلیہ کی ساکھ کو مستحکم کریں گے۔
حکومت اور عدلیہ کے تعلقات گزشتہ چند برسوں میں پیچیدہ ہوچکے ہیں اور حکومت نے بعض مواقع پر عدلیہ کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ اس پس منظر میں،چیف جسٹس کھنہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایگزیکٹیو کے دبائو سے آزاد رہ کر آئین کی بالادستی کو یقینی بنائیں۔ ان کے فیصلے نہ صرف عدلیہ کی آزادی پر اثر انداز ہوں گے،بلکہ پورے ملک کی جمہوریت کی روح کو بھی متاثر کریں گے۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ کا خاندان ہندوستانی عدلیہ میں ایک قابل احترام مقام رکھتا ہے۔ ان کے چچاجسٹس ہنس راج کھنہ نے ایمرجنسی کے دوران ہیبیس کارپس کیس میں اختلافی رائے دی تھی اور جمہوریت کے اصولوں کی حفاظت کی تھی۔ ان کی جرأت مندانہ رائے اور استعفیٰ نے اس وقت کے سیاسی ماحول میں عدلیہ کی خودمختاری کے حق میں ایک سنگ میل قائم کیا تھا۔ اب جسٹس سنجیو کھنہ اس وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے چیف جسٹس کے طور پر انہی اصولوں کا پرچم اٹھا رہے ہیں۔
ماضی میںسپریم کورٹ کو ایک طاقتور ادارہ سمجھا جاتا تھا جو ایگزیکٹیو کے ہر قدم کی نگرانی کرتا تھا اور آئین کی حفاظت کرتا تھا۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس ادارے کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور عوام کا اعتماد کم ہوا ہے۔ چیف جسٹس کھنہ سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ اس صورتحال کو بہتر کریں گے اور عدلیہ کو دوبارہ ایک مضبوط،آزاد اور غیرجانبدار ادارہ بنائیں گے۔
چیف جسٹس کے عہدے کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ حکومتی دبائو کے باوجود آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کریں اور یہ ثابت کریں کہ وہ عدلیہ کی آزادی کے حقیقی محافظ ہیں۔ ان کے فیصلے نہ صرف سپریم کورٹ کی ساکھ پر اثر انداز ہوں گے بلکہ ہندوستان کی آئینی جمہوریت کے مستقبل کی شکل بھی طے کریں گے۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ کیلئے یہ 6 ماہ کا عرصہ ایک امتحان ہوگا۔ انہیں عدلیہ کی ساکھ کو دوبارہ قائم کرنا ہوگا اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ آئین کی بالادستی برقرار رہے۔ ان کے فیصلے اس بات کا تعین کریں گے کہ ہندوستان میں عدلیہ کا کردار کیا ہوتا ہے اور آئندہ آنے والی حکومتوں کو اس کے سامنے کس حد تک جوابدہ ہونا پڑے گا۔ یہ ان کیلئے ایک سنہری موقع ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی اور آئین کے تحفظ کیلئے اپنے خاندان کی میراث اور اصولوں کا بہترین استعمال کریں۔