نئی دہلی: ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کے واقعات کے بعد ملک میں چینی مصنوعات پر پابندی کی مہم چلتی نظر آئی ہے اور اب ایک بار پھر یہ موضوع سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔ اس بار چینی ایپس کا ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ ہندوستان میں 59 چینی ایپس پر پابندی عائد کی گئی ہے، جن میں مقبول ایپ ٹک ٹاک بھی شامل ہے۔ انڈیا کی جانب سے اس اعلان کے بعد سے انڈیا میں #RIPTiktok# ChineseAppBlocked ٹرینڈ کر رہے ہیں۔
ہندوستانی اخبار دی ہندو کی مدیر سہاسنی حیدر نے اس بارے میں ٹویٹ کیا کہ ’امید ہے کہ حکومت اس کی زیادہ وضاحت کرے گی۔ اگر 59 ایپس پر پابندی لگانا پی ایل اے کے خلاف کارروائی ہے جنہوں نے گلوان پر چڑھائی کی اور 20 فوجیوں کو ہلاک کیا تو یہ جواب ناکافی ہے۔ اگر اس سے چین کی معیشت کو نقصان پہنچانا مقصد تھا تو یہ بھی ناکافی ہے‘۔ معروف انڈین بزنس مین اور پے ٹی ایم کے بانی وجے شیکھر شرما نے ٹویٹ کیا کہ’ہندوستانی مفاد میں یہ بہت دلیرانہ قدم ہے‘۔ اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ ہندوستانی آگے آئیں اور انڈینز کے لیے سب سے بہتر چیزیں بنائیں۔ وجے شرما کی اس ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے صحافی سواتی چترویدی نے پے ٹی ایم میں چینی سرمایہ کاری پر ان سے سوال کیا۔ حمدان سعید نے ٹویٹ کیا کہ ’مودی پے ٹی ایم کی حفاظت کیوں کر رہے ہیں؟ پے ٹی ایم پر پابندی کیوں نہیں؟ وہ ایپ جس کے برینڈ میں اُن کا چہرہ استعمال ہورہا ہے انچالیس اعشاریہ تین فیصد چینیوں کی ملکیت میں ہے‘۔
یاد رہے کہ چینی سرمایہ انڈیا کی ٹیکنالوجی کی صنعت میں لگا ہوا ہے اور ماہرین کے مطابق ہندوستان کی 'زومیٹو'، 'پے ٹی ایم'، 'بِگ باسکٹ' اور 'اولا' جیسی نئی بننے والی ٹیک کمپنیوں میں 'علی بابا' اور 'ٹینسینٹ' جیسی چینی کمپنیاں ایک حکمتِ عملی کے تحت اربوں ڈالرس کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ شہریار آفتاب خان نے کہا کہ’دشمن کی چڑھائی کے دو مہینے بعد نیو انڈیا کا ایپس پر پابندی کے ذریعے جواب۔ کیا زبردست حملہ ہے۔ مگر لگتا ہے کہ پے ٹی ایم، ویوو، اوپو، فلپکارٹ، سویگی، زوماٹو، ہواوے، اولا، ژاؤمی اور ون پلس پر پابندی نہیں ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ چینی ایپس ہیں۔ کیوں؟‘
ہندوستان کے ایک صحافی ساکیت گوکھلے نے ہندوستانی حکومت کے اس اعلان کے حوالے سے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلائی اور بظاہر ٹک ٹاک انڈیا کی جانب سے بیان کا اسکرین شاٹ شیئر کیا اور انٹرنیٹ پر خوب زور سے ہنسنے کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ایل او ایل کا استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایپس پر یہ پابندی ایک عارضی حکم ہے اور ایپ کمپنیوں کو حکومت نے وضاحت جمع کرانے کے لیے بلایا ہے۔ بنیادی طور پر یہ پابندی انڈینز کو بیوقوف بنانے کے لیے ہے اور یہ عارضی تاثر پیدا کرنے کے لیے ہے کہ مودی نے کچھ کیا ہے۔‘
چینی ایپس پر پابندی کے اعلان پر اینکر ارنب گوسوامی کا پروگرام بھی ہندوستان اور پاکستان میں شیئر کیا جا رہا ہے اور لوگ اس کا خوب مذاق اڑا رہے ہیں۔ ارنب گوسوامی کا نام بھی ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ پاکستانی ٹی وی اینکر معید پیرزادہ نے ارنب گوسوامی کی ویڈیو کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہمالیہ کانپ رہا ہے، چینی رو رہے ہیں، مودی کے خوف سے اور سفاکانہ جوابی کارروائی سے ڈر کر بھاگ رہے ہیں۔ مگر اس بندے پر کس جن کا قبضہ ہوگیا ہے؟ کیا ریٹنگ اس طرح کی کوئی چیز کر سکتی ہے یا یہ کچھ زیادہ سنگین بات ہے؟‘
اسی ویڈیو کو ٹویٹ کرتے ہوئے کامیڈین سپن ورما نے لکھا کہ ’ارنب ریپبلک ٹی وی کو اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ کی طرح استعمال کرتے ہیں‘۔
ایک چینی صارف نے ہندوستان کی جانب سے 59 ایپس پر پابندی کی خبر کو ری ٹویٹ کیا اور لکھا ’تھوڑی مایوسی ہو رہی ہے کہ کوئی انڈین چیز نہیں مل رہی جو ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہوں، کوئی انڈین ایپلیکیشن/سافٹ ویئر ہماری ڈیوائسز پر انسٹال نہیں ہے۔ کیا ہم آموں کا بائیکاٹ کر دیں؟ ارے ٹھہریں وہ تو پاکستان سے درآمد کیے جاتے ہیں۔‘
کالم نگار ٹام فاؤڈی نے لکھا کہ چین بھی خوشی سے مقبول انڈین ایپس پر جواب میں پابندی لگا سکتا ہے ’مگر بات صرف یہ ہے کہ وہ موجود ہی نہیں‘۔
چینی ایپ ٹک ٹاک پر پابندی بھی سوشل میڈیا پر موضوع بحث رہی۔ بہت سے لوگ #RIPtiktok ہیش ٹیگ استعمال کر رہے ہیں، جبکہ کچھ لوگ جو اس فیصلے سے خوش ہیں اسے’مودی جی کی ڈیجیٹل سٹرائیک‘کہہ رہے ہیں اور #DigitalStrike ٹرینڈ کر رہا ہے۔
پاکستان میں بھی اس بارے میں کافی بات ہو رہی ہے۔ حسیب اسلم نے ٹویٹ کیا اور کہا کہ ’انڈیا نے 59 چینی ایپس بلاک کر کے اپنی فوج کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا ہے‘۔