محمد حنیف خان
موسم میں تبدیلی فطرت کا نظام ہے، جس کے مثبت و منفی اثرات ہماری زندگی پر مرتب ہوتے ہیں لیکن ترقی کی ہماری خواہشات نے اس تبدیلی کو زندگی کے لیے بڑا مشکل بنا دیا ہے۔ اب یہی دیکھئے گرمی میں سخت گرمی اور سردی میں حد سے زیادہ سردی کس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے، جن کے پاس دولت ہے، وہ اس تکلیف کو اپنی ذات کے لیے کچھ حد تک کم کر لیتے ہیں۔ عمر کے فرق کے اعتبار سے یہ مشکلات بھی کم نہیں ہوتی ہیں۔ بوڑھے اور بچے سب سے پہلے موسم کی تبدیلی کی زد میں آجاتے ہیں۔
سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی مشکلیں بڑھنا شروع ہوگئی ہیں۔ سردی اور ماحولیاتی آلودگی سے پریشانی دوہری ہوگئی ہے۔ان دونوں پریشانیوں میں ہماری ترقی کی خواہشات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔مرکزی ماحولیات کنٹرول بورڈ کے مطابق قومی راجدھانی دہلی کا ماحولیاتی (فضائی آلودگی) معیارکا درجہ بدھ کی صبح آٹھ بجے481 اعداد کے ساتھ پریشان کن درجے میں پہنچ گیا۔ فضائی آلودگی میں اس قدر اضافہ تین ہفتے کے بعد ہوا ہے۔جب گریڈیڈ رسپانس ایکشن پلان کے چوتھے مرحلے کے تحت پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔محکمہ موسمیات نے صبح دھند اور کہرا چھائے رہنے کے ساتھ جموں وکشمیر، پنجاب، ہریانہ، دہلی اور اترپردیش میں سرد لہر کا اندازہ لگایا ہے۔یعنی فضائی آلودگی کو سرد لہر کا بھی ساتھ مل گیا ہے جس سے مزید مشکلات بڑھنے لگیں گی۔
محکمہ موسمیات کے مطابق وہ سرد لہر کا اعلان اس وقت کرتاہے جب کسی میدانی علاقے میں کم سے کم درجہ حرارت10ڈگری سیلیس یا اس سے کم ہوجاتا ہے۔جبکہ پہاڑی علاقے میں درجہ حرارت صفر یا اس سے نیچے چلا جاتاہے۔ عام اور اصل درجہ حرارت کے مابین فرق کو دیکھیں تو اندازہ ہوتاہے کہ سرد لہر کی صورتحال اس وقت بنتی ہے جب درجہ حرارت4.5سے 6.4ڈگری سیلسیس کم ہو۔جبکہ سخت سرد لہر میں عام درجہ حرارت سے6.4ڈگری سیلسیس سے زیادہ کی گراوٹ آجائے۔
موسم اگر فطرت اور معمول کے مطابق تبدیل ہو یہ بڑا خوشگوار ہوتاہے، زندگی رنگا رنگی اور خوشیوں سے بھری محسوس ہوتی ہے لیکن اگر سردی یا گرمی غیر فطری اور حد سے زیادہ ہو تو بے گھروں، بے سہارا لوگوں، بزرگوں، بچوں اور بیماروں کے لیے بڑی مشکلات ہوتی ہیں۔
سرد لہر میں کھلے میں کام کرنے والوں کے بارے میں ذرا سوچ کر دیکھیں، کسانوں، مزدوروں اور اینٹ بھٹوں پر کام کرنے والے لوگ کس قدر دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں۔کسان اور اینٹ بھٹے پر کام کرنے والے مزدوروں کو تو کپڑے تک اتار کر کام کرنا پڑتاہے، دونوں کو پانی اور گیلے پن میں رہنا پڑتاہے، وہ کس قدر موسم کی مار جھیلتے ہیں۔
سردی کے اس سخت ترین موسم میں اگر احتیاطی تدابیر نہ کی جائیں تو زیادہ سردی نہ صرف نقصان پہنچا سکتی ہے بلکہ بعض اوقات موت کا بھی سبب بن جاتی ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق ٹھنڈ لگنے سے ہائپوتھرمیا اور فراسٹ بائٹ یعنی جسم کا ماؤف ہوجانا اور ٹرینچ فٹ جیسی پریشانیاں ہوسکتی ہیں۔ان میں سب سے زیادہ جان لیوا ہائپو تھرمیا ہے۔جو دیر تک سردی میں رہنے کی وجہ سے ہوتاہے۔ اس میں جسم جتنی گرمی پیدا کرتاہے،اس سے کہیں زیادہ تیزی سے گرمی کھونے لگتاہے، اس صورت میں جسم کا درجہ حرارت بہت کم ہوجاتاہے، اس سے دماغ متاثر ہوتاہے اور انسان سوچنے و چلنے کی صلاحیت کھونے لگتاہے۔اس سے یہ بھی ہوتاہے کہ جب جسم کا درجہ حرارت کم ہونے لگتا ہے تو شریانیں سکڑنے لگتی ہیں اور فشار خون میں اضافہ ہونے لگتاہے جس کی وجہ سے دل پر دباؤ بڑھتاہے، اسی وجہ سے حرکت قلب کا خطرہ پیدا ہوتاہے اور بعض اوقات حرکت قلب بند ہوجاتی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ خطرہ بیماروں اور بزرگوں کے لیے ہوتاہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ، آئرلینڈ اور نیدر لینڈ میں60برس سے زیادہ عمر کے لوگوں پر کیے گئے ایک مطالعہ میں یہ سامنے آیا کہ چار دن کی سردی سے بھی دل کے دورے کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتاہے۔
ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے جس کی آبادی 140کروڑ سے زائد ہے۔ اقتصادیات میں تیزی کے ساتھ ترقی کرنے والے ملک کا دعویٰ ہے۔ اس کے باوجود غربت کا عالم یہ ہے کہ80کروڑ سے زائد افراد سرکاری اناج پر منحصر ہیں، جن لوگوں کا آذوقہ حیات پانچ/دس کلو سرکاری اناج ہو، وہ اس سخت سرد لہر کا مقابلہ کرنے کے انتظامات کیسے کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ان میں قوت مدافعت اتنی کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ موسم کی غیرفطری تبدیلی کا مقابلہ کرلیں کیونکہ وہ تو کسی طرح سے بس جینے بھر کا ہی پاتے ہیں۔
دیہی علاقوں کو چھوڑ دیجیے، بڑے بڑے شہروں میں سخت گرمی یا سخت سردی میں لوگوں کو دیکھئے، انسانوں کا انبوہ سڑکوں پر سوتا ہوا ملے گا، سڑکوں کے کنارے سخت سردیوں میں گدڑیوں میں لپٹے ہوئے لوگ ملیں گے، جہاں اوور بریج ہیں وہ ان کا مسکن ہیں، ایسا لگتاہے یہ انسان نہیں بلکہ جانور ہیں جن کی کوئی سدھ لینے والا نہیں ہے۔ حکومت و انتظامیہ سخت سردی میں رین بسیروں کا انتظام ضرور کرتے ہیں لیکن ان بے گھروں کی تعداد اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ناکافی ہوتے ہیں، دیہی علاقوں میں تو ان رین بسیروں کا بھی تصور نہیں۔ حالانکہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا ہر طرح سے تحفظ کرے۔
سرد لہر کے دوران رفاہی کام کرنے والی تنظیمیں اور افراد گرم کپڑوں کی تقسیم بھی کرتے ہیں جس سے محسوس ہوتاہے کہ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کا درد ہے لیکن صرف چند افراد یا تنظیموں کے اس عمل سے سبھی لوگوں کو موسم کی مار سے نہیں بچایا جاسکتاہے۔اس کے لیے ہر طبقے کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقامتی ہالوں، ویمنس کالج اور دیگر مقامات پر سردی کا موسم آتے ہی کارٹن رکھ دیے جاتے ہیں جن میں گرم کپڑے جمع کیے جاتے ہیں پھر ان کی شہر میں ضرورت مندوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔یہ طلبا و طالبات کے استعمال شدہ یا ضرورت مندوں میں تقسیم کے لیے خریدے گئے نئے کپڑے ہوتے ہیں،جن سے آس پاس کے لوگوں کی مدد کی جاتی ہے۔یہ نظام اگر شہر کی سوسائٹیوں اور کالونیوں میں رہنے والے لوگ بھی ترجیحی بنیاد پر اپنا لیں تو بہت اچھا ہو۔بہت سے لوگوں کی اس سے مدد ہوجائے گی۔
سخت سرد لہر میں یوں تو ہر شخص کو بچنے اور احتیاطی تدابیر کرنے کی ضرورت ہے لیکن بزرگوں، بیماروں، بچوں خاص طور پر پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کے لیے سب سے زیادہ خطرہ ہوتاہے، اس لیے ان کی سخت نگہداشت کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
حکومت کو اپنی سطح پر دیہی اور شہری علاقوں میں سردی سے بچاؤ کے جہاں انتظامات کرنے چاہئیں، وہیں اس کو فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، یہ اچھی بات ہے کہ حکومت نے فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے،لیکن اس پر سختی سے عمل کی بھی ضرورت ہے اور صرف فصلوں کی باقیات جلانے پر روک سے ہی کام نہیں بنے گا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے دھویں والی کمپنیوں اور کارخانوں پر بھی توجہ دی جائے تاکہ فضائی آلودگی کم ہوسکے۔سرد لہر میں فضائی آلودگی، کم وزبیلیٹی(کہرے کی وجہ سے کم دکھائی دینا) کی صورت حال میں زندگی نہ صرف تھم سی جاتی ہے بلکہ اس سے قوت عمل متاثر ہوتاہے اور حادثے بھی رونما ہوتے ہیں، خاص طور پر سڑکوں پر ہونے والے حادثے بے حد خطرناک ہوتے ہیں، کم دکھائی دینے کی وجہ سے اس موسم میں کتنی ہی زندگیاں سڑک حادثات کی نذر ہوجاتی ہیں۔ حکومت اور عوام دونوں کو اپنی اپنی سطح پر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔