ابونصر فاروق
اللہ رب العالمین اس کائنات کا اصلی اور حقیقی خالق، مالک ، حاکم اور رازق ہے۔اُس کی کائنات میںجس کا ایک حصہ یہ دنیا ہے جس میں ہم سب رہتے ہیں، صرف اللہ کا حکم چلتا ہے۔ سب کام اُسی کے فیصلے اور اجازت کے بعد ہوتے ہیں۔ وہ سارے لوگ جو اللہ پر کسی نہ کسی حیثیت سے ایمان رکھتے ہیں اور اُس کو ہی کائنات کا خالق مانتے ہیں،اس سچائی کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اللہ کو اپنے عقیدے اور نظریے کے مطابق کسی اور نام سے جانتے ہیں۔ جب اللہ اس کائنات کا اصلی خالق، مالک ، حاکم اور رازق ہے تو وہ اپنے کسی بھی بندے کو یہ حق کیسے دے سکتا ہے کہ وہ اُس کی پیدا کی ہوئی کسی بھی مخلوق کا مالک اور حاکم بن جائے؟اس نظریے سے جو انسان بھی کسی دوسرے انسان یا حیوان کا مالک اور مختار بن کر اُس کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے تو اللہ کی نگاہ میں وہ مجرم اور گنہگار ہے۔
حیوانات کی دنیا میں اُس نے دو طرح کے حیوانات پیدا کیے ہیں۔کچھ آسمانی پرندے، پانی اور جنگل میں رہنے والے جاندار اپنے جیسے دوسرے جانداروں کو مار کر کھاتے ہیں۔ وہی اُن کی غذا ہیں۔ظاہر میں ایسا لگتا ہے کہ یہ ظلم اور سبزی کھانے والے پرندوں اور جانوروں کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔ لیکن یہ ظلم اور زیادتی اس لئے نہیں ہے کہ خود کائنات اور اس کے اندر پیدا ہونے والے جانداروں کیلئے کائنات کے مالک نے ہی ایسا قانون بنایا ہے۔یہ باتیں جب رحم اور ہمدردی کی بنیاد پر کی جاتی ہے تو اس کو سمجھنا ہوگا کہ انسانوں کے اندر رحم اور ہمدردی کے جذبات بھی اُسی اللہ نے پیدا کئے ہیں جوان سبھوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ اس لئے رحم اور ہمدردی کہاں کرنی ہے اور کہاں نہیں کرنی ہے اس کی تعلیم اور حکم دینے کا حق بھی اُسی کو ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق کا جتنا ہمدرد، اُن پر رحم کرنے والا اور اُن کا خیر خواہ ہے اُس کے سوا کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ لیکن تماشے کی بات یہ ہے کہ دنیا کے انسانوں نے ہمیشہ اللہ سے بغاوت کر کے اپنا حکم چلایا ہے اور اپنے جیسے انسانوں اورحیوانوں اور دنیا کی دوسری مخلوق کو آزادی کی نعمت سے محروم کیا ہے۔ دنیا کا ماحول خود بگاڑا ہے اورچاہتے ہیں کہ اس کو اللہ سدھارے ۔اپنا کام اللہ سے کرانا چاہتے ہیں۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس ایک مقدمہ آیا کہ ایک آدمی کے پاس ایک سو دُنبیاں ہیں اور ایک آدمی کے پاس صرف ایک دُنبی ہے۔ ایک سو دُنبی والا ایک دُنبی والے سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اپنی دُنبی بھی اُس کو دے دے۔ داؤد علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ یہ ظلم ہے اور ایک دُنبی والے کی مدد کر کے اُس پر ظلم ہونے سے روک دیا۔ یعنی اُن کی حکومت میں طاقتور کمزور کو آزادی سے محروم نہیں کر سکتا تھا۔
قرآن کی سورۂ النمل میں ہے کہ سلیمان علیہ السلام جن کی حکومت انسانوں، جنوں اور پرندوں پر تھی ایک بار اپنے لشکر کے ساتھ چیونٹیوں کی وادی سے گزر رہے تھے۔چیونٹیوں کے سردار نے چیونٹیوں کو حکم دیا کہ اپنی بلوں میں گھس جاؤ ،ایسا نہ ہو کہ سلیمان علیہ السلام کا لشکر تم کو دیکھ نہ پائے اور تم سب اُن کے پیروں تلے روند دیے جاؤ۔ سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کے سردار کی بات سن لی اور لشکر کو روک دیا تا کہ چیونٹیوں پر ظلم نہ ہو۔معلوم ہوا کہ سلیمان علیہ السلام کی حکومت میں سب سے کمزور مخلوق کو بھی آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق تھا۔
پتا نہیں اُ س کے بعد کتنے زمانے تک دنیا فتنہ و فساد سے بھری رہی۔پھر عرب دیس کے مکہ شہر میں آخری نبی حضرت محمد ؐ نبی بن کر قوم کے سامنے آئے۔قوم کے ایک سردار ابو جہل کے پاس ایک یتیم بچے کی کچھ رقم باقی تھی۔ وہ یتیم بچہ ابوجہل سے اُ س کا مطالبہ کر رہا تھا مگر وہ ٹال مٹول کر رہا تھا۔ ایک بار وہ بچہ قریش کے دوسرے سرداروں کے پاس مدد کے لئے پہنچا۔اُنہوں نے شرارت سے نبیؐ کی طرف اشارہ کر دیا کہ جاؤ وہ تمہاری مدد کریں گے۔اُن کو یقین تھا کہ ابو جہل اُن کی بات نہیں مانے گا اور اُن کی رسوائی ہوگی۔ لیکن جب نبی ؐنے ابوجہل سے کہا کہ اس بچے کی امانت اُسے لوٹا دو تو اُس نے فوراً یتیم بچے کی امانت اُسے لوٹا دی۔ اس پر دوسرے سرداروں نے اُسے ملامت کی کہ تم نے کیا بزدلی دکھائی۔اس سے تو نبیؐ کی عزت بڑھ گئی۔ آخری نبیؐ کی زندگی کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ ایک کمزور کو ایک طاقتور کے مقابلے میں اپنا حق پانے کی آزادی ملی تھی۔
نبی ؐ جب ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو وہاں ایک ایسا سماج بنایا جس کا حاکم صرف اللہ تھا اور اللہ کے نمائندے نبی ؐ تھے جو اللہ کا قانون سماج پر نافذ کر رہے تھے۔عرب میں بچیوں کو زندہ دفن کر دیاجاتا تھا۔نبیؐ نے تین اور دو بیٹیوں کے باپ کو بشارت دی کہ اگر تم نے اپنی بیٹیوں کو صالح خاتون بنا کر اُن کا نکاح کر دیا تو تم جنت میں میرے پڑوسی بنو گے۔اس کے بعد کمزور اور ناتواں بچیوں پر ظلم ہونا بند ہو گیا اور وہ گھروں میں اللہ کی رحمت سمجھی جانے لگیں۔ آسمان کے نیچے زمین پر پہلی بار کمزور عورت کو زندہ رہنے کی آزادی ملی۔عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں ملا کرتا تھا۔قرآن میں حکم آیا کہ مردوں کی طرح عورتو ں کے بھی حقوق ہیں اور سورہ نسا میں موجود آیت کے تحت عورتوں نے بھی پہلی بار وراثت میں حصہ پانے کی آزدی پائی۔مرد اپنی بیویوں کو اپنی ماتحت بنا کر لونڈی کی طرح رکھتے تھے۔نبی ؐنے فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنی بیوں کے لئے اچھا ہو۔ اس کے بعد مردوں نے اپنی بیویوں پر ظلم کرنا بند کر دیا اور بیویوں کو آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کی آزادی ملی۔
اُس وقت پوری دنیا میں انسانوں کو جانوروں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ انسان مرد اور عورتیں ویسے ہی غلام بنا کر رکھے جاتے تھے جیسے بھیڑ اور بکری رکھے جاتے ہیں۔نبیؐ نے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اُن کو برابری کا درجہ دینے کا حکم دیا اور مدینہ کے غلاموں کی تقدیر جاگ اٹھی۔ اُ ن سبھوں کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کی آزادی ملی۔ حضرت زیدؓ ایک اچھے خاندان کے بچے تھے۔ ظالموں نے اُنہیں چرا کر بیچ دیا تھا اور وہ حضرت خدیجہ ؓ کے پاس غلام کی حیثیت سے رہتے تھے۔ شادی کے بعد خدیجہؓ نے اُن کو نبی ؐکی خدمت میں پیش کر دیا۔ زید ؓ کے گھر والوں کو پتا چلا تو وہ نبیؐ کے پاس آئے اور کہا کہ میرے بچے کو واپس کر دیجئے اور جو قیمت چاہئے لے لیجئے۔ نبی ؐ نے کہا کہ میں کسی کو بھی اپنے آپ سے جدا نہیں کرتا ہوں۔ زید اگر جانا چاہے تو مجھے چھوڑ کر تمہارے ساتھ جا سکتا ہے۔ زیدؓ نے اپنے گھر والوں سے کہہ دیا کہ وہ نبیؐ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے ہیں۔ زید ؓ کا آقا تمام جہان والوں کے لئے رحمت بن کر آیا تھا ، زید اُس رحمت کے آسمان کو کیسے چھوڑ سکتے تھے۔ایک بار نبیؐ ایک آدمی کے گھر گئے۔ وہاں ایک اونٹ بندھا ہواتھا۔ نبی ؐ کو دیکھ کر وہ اونٹ رونے لگا۔ نبی ؐ نے اُس کے مالک سے کہا تم اونٹ کو باندھ کر رکھتے ہو اور اُس کو کھانا دانا بھی نہیں دیتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور بے زبان جانور کا حق ادا کرو۔ اُس کے بعد مدینہ کے تمام جانوروں کو اپنا حق پانے اور آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق مل گیا۔ ایک بار نبیؐ ایک سفر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جا رہے تھے۔ ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور کسی کام سے وہاں سے چلے گئے۔ واپس آئے تو دیکھا کہ ایک چڑیا لوگوں کے سروں پر چکر لگا رہی ہے اور فریاد کر رہی ہے۔نبیؐ نے پوچھا کہ اس کے بچوں کو کس نے پکڑ لیا ہے۔ فوراً جا کر اُس کے گھونسلے میں اُس کے بچوں کو رکھ آؤ۔ نبیؐ نے نشانہ بازی کے لئے جانداروں کو نشانہ بنانے سے منع فرمایا۔ اس طرح دور رسالت اور خلافت میں پرندوں کو بھی آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق مل گیا۔ نبیؐ نے فرمایا کہ جو درخت پھل، پھول اور سایہ دے رہے ہوں اُنہیں بلا ضرورت مت کاٹو۔ اور اس کے بعد پیڑ پودوں کو بھی زمین پر آزاد زندگی گزارنے کی آزادی مل گئی۔
نبوت کا دور ختم ہوا اور پھر خلافت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اُس کے بعد بادشاہت کا دور آیا اور ایک ایک کر کے اسلام کی وہ تمام برکتیں جو نبوت اور خلافت کے دور میں زمین پر جاری تھیں مٹتی چلی گئیں۔اور آج صرف ساری دنیا میں ہی نہیں بلکہ مسلم ملکوں میں اور اُن علاقوں میںبھی جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادیاں اور مسلم گھرانے ہیںوہاںبھی لوگ آزادی کی نعمت سے محروم ہیں۔ ملک میں آزادی کا جشن منایا جارہا ہے، لیکن ملک میں رہنے والے کمزور طبقات آزادی کے ساتھ جینے کے حق سے بھی محروم ہیں۔