اسلم چشتی، پنے
ڈاکٹر نسیم نکہت مشاعروں کے حوالے سے جانی جاتی ہیں – ادب میں ان کی ہمعصر خواتین میں ان کا نمایاں مقام ہے – یہ تو ان کے تحقیقی شعری ادب کی بات ہے لیکن ان کی لیاقت اور قابلیت اردو تحقیق میں مسلمہ اس وجہ سے مانی جاتی ہے کہ انھوں نے ایک ایسے موضوع کو اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کا انتخاب کیا جو اہم بھی ہے اور منفرد بھی ان کے مقالہ بعنوان ” اردو شاعری میں واقعاتِ کربلا” پر لکھن یونیورسٹی نے 1993. میں پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا – پروفیسر محمود الحسن رضوی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ، لکھن یونیورسٹی( لکھن) کے زیرِ نگرانی لکھے ہوئے اس مقالے کو 2013. میں کتابی صورت میں شایع کیا گیا – ادب کے ماہرین نے مقالے کی ستائش کی – قارئین میں بھی پذیرائی ہوئی یہ کتاب فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی حکومتِ اتر پردیش کے مالی تعاون سے شایع ہوئی – اور ادب کی تحقیق میں اضافے کا باعث بنی – ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے پیش لفظ میں مقالے کے وجود میں آنے کے اسبات اور اہم وجوہات کو بیان کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس کے کس باب میں مواد کیا کیا ہے – استادِ محترم پروفیسر محمود الحسن اور دیگر شخصیات کے تعاون کا شکریہ بھی ادا کیا ہے – استادِ محترم نے اس مقالے کے بارے میں دو صفحات کا مضمون لکھا ہے – ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں – ” ڈاکٹر نسیم نکہت خود ایک شاعرہ ہیں – انہوں نے ہر دور کے شاعروں کا مطالعہ کیا اور اسی لیے جن حقائق کی وضاحت کی ہے اور جو مثالیں پیش کی ہیں وہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں – یہ مقالہ میری نگرانی میں مکمل ہوا مجھے خوشی و اطمینان ہے کہ ڈاکٹر نسیم نکہت نے موضوع کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے اور کافی محنت کر کے اس تحقیقی کام کو انجام دیا ہے – اس تحقیقی تصنیف کے علاوہ اگر وہ اس موضوع پر مزید کام کریں گی تو اس سے اردو ادب میں اضافہ ہوگا – مجھے یقین ہے کہ اس مقالہ کو ادبی حلقوں میں پسند کیا جائے گا اور اس کے مطالعہ سے شائقینِ ادب استفادہ کریں گے “(پروفیسر سید محمود الحسن، کتاب ہذا)
ڈاکٹر محمود الحسن کے علاوہ مشاہیرِ ادب ملک زادہ منظور احمد ، ڈاکٹر شارب ردولوی کے بھی تاثرات اس کتاب کی زینت بنے ہیں – یہ کتاب کل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے – (1) واقعہ کربلا تاریخی ، مذہبی ، معاشرتی اور ادبی اہمیت (2) اردو مرثیہ اور واقعہ کربلا کی اشاعت (3) بیسویں صدی سے قبل اردو شاعری میں واقعاتِ کربلا (4) بیسویں صدی میں ہندوستان کی سماجی و سیاسی اور معاشی کشمکش (5) اردو شاعری میں واقعاتِ کربلا ( 1901 تا 1936. ) (6) ترقی پسند شعرا میں واقعاتِ کربلا(7) جدیدیت سے متاثر شعرا کے کلام میں واقعاتِ کربلا(8) دورِ جدید کی شاعری میں واقعاتِ کربلا کی اہمیت – ابواب کے عنوان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محترمہ کا یہ کام کتنا وسیع جامع اور اہم ہے اور یہ کہ ہر ابواب میں ذیلی عنوانات کے تحت جو مواد رقم کیا گیا ہے وہ قاری کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے – یہی نہیں اس میں ایسے بھی انکشافات سامنے آئے ہیں کہ کئی جگہ قاری چونک اٹھتا ہے – اس ضخیم کتاب میں واقعئہ کربلا کی معلومات کا ایک جہان آباد ہے – نا چیز کا خیال ہے کہ یہ وہ کام ہے جو کوئی ادارہ ہی کر سکتا تھا لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے اکیلے اس بیڑے کو پار لگایا ہے اس میں کئی مقامات پر قاری حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور مصنفہ کی جانفشانی، محنت اور لگن اور شوق کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا – یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے لیے ایک قرآت نا کافی ہے – اس کو بار بار پڑھتے رہنا چاہیے تا کہ معنویت کے نئے نئے در کھلیں – ناچیز نے تین بار اس کا مطالعہ کیا ہے – جس کا تاثر ذہن پر ثبت ہو کر رہ گیا ہے – اور میں نے اپنے گھریلو کتب خانے میں اسے محفوظ کر لیا ہے – تاکہ کبھی ضرورت کے وقت کام آئے – ایک طویل مقالے پر تبصرہ کرنا آسان نہیں کیونکہ کتاب کے ساتھ انصاف کرنے کے لیے اس کے کئی رخوں پر گفتگو کرنی ضروری ہے – ایسی قابلیت نا چیز میں نہیں – اس کا تنقیدی مطالعہ کوئی عالم نقاد ہی کر سکتا ہے – اگر ایسا ہو جائے تو اس مقالے کے عیب و ہنر کھل کر سامنے آ جائیں – میں یہاں پر ان اشعار کو نقل کرنا چاہوں گا جو ہر دور میں واقعئہ کربلا سے متاثر ہو کر کہے گئے ہیں یہ اشعار میں نے اسی کتاب سے اپنی پسند اور سمجھ کے لحاظ سے منتخب کیے ہیں – ملاحظہ فرمائیں –
لاہور کہ اہلِ دل کی جاں تھا
کوفے کی مثال ہو گیا ہے
باد بے جہت اب کے سارے گھر اجاڑے گی
کن کے سر قلم ہوں گے کون نقد سر دے گا
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
خلق نے یہ منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
نوکِ سناں پہ سر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
جس طرح دریا بجھا سکتے نہیں صحرا کی پیاس
اپنے اندر ایک ایسی تشنگی بن جائیے
دل خوف میں ہے عالمِ فانی کو دیکھ کر
آتی ہے یاد موت کی پانی کو دیکھ کر
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
لاکھ مقتل کی فصیلیں ہوں بلند
خون ناحق کا چھپانا مشکل
ایسے سینکڑوں اشعار کے حوالے اس کتاب میں آ گئے ہیں – ان اشعار کے شاعر الگ ہیں اور ادوار بھی الگ ہیں – ظلم ہر دور میں ہوتا رہا ہے، دھوکہ اور فریب سے دنیا خالی نہیں ہے اور نہ ہی ظلم، جبر، نا انصافی اور دھوکہ دہی کا مقابلہ کرنے والے جیالوں کی کمی رہی ہے – جب بھی ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں – شاعر کی اجتماعی آواز ابھرتی ہے اور وہ لا شعوری طور پر اس واقعئہ کربلا کا سہارا لیکر آواز میں دم پیدا کر لیتا ہے جو حق اور باطل کی جنگ کا کربناک شرمناک واقعہ تھا – ڈاکٹر صاحبہ نے واقعۂ کربلا سے متاثر ہو کر کہے گئے اشعار کو ڈھونڈنے میں پتہ نہیں کتنا وقت صرف کیا ہوگا – کتنی نیندیں قربان کر دی ہوں گی، اس کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے – کچھ اور اشعار ملاحظہ فرمائیے جو ڈاکٹر صاحبہ کا حسنِ انتخاب ہے –
غم نہ ہو ممکن تو چار آنسو ندامت کے سہی
کچھ تو آخر حرمتِ خونِ شہیداں کیجئے
فانی کفِ قاتل میں شمشیر نظر آئی
لے خوابِ محبت کی تعبیر نظر آئی
تھے حق پہ وہ بے شک کہ نہ ہوتے تو نہ ہوتا
دنیا میں بپا ماتم شبیر ابھی تک
ہو گیا راہِ عشق میں جو شہید
وہ فنا ہو کے بھی فنا نہ ہوا
زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں
مرے خیال کو بیڑی پہنا نہیں سکتے
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
٭٭٭
ہم نے دیکھا ہے سیاست کا یہ حسنِ انصاف
جس پہ دستار سجی تھی وہی سر کاٹ دیا
کتاب ” اردو شاعری میں واقعاتِ کربلا” اردو ادب میں اپنے موضوع کے اعتبار سے دستاویزی حیثیت رکھتی ہے – ڈاکٹر نسیم نکہت کا یہ کام ان کے نام کو اکیسویں صدی کے اردو ادب میں تابندہ رکھے گا – اس یقین پر میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحبہ اور بھی ایسے کچھ تحقیقی کام کر کے اردو ادب کو مالا مال کریں گی – اللہ انھیں صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے آمین –