سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
اس وقت جبکہ وادیٔ کشمیر میں کووِڈ19- نے یہاں کے نظامِ صحت کو بری طرح دباؤ میں لیا ہوا ہے کشمیری اُس عوام آل انڈیا میڈیکل انسٹیچیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمز) کے بارے میں پوچھ رہے ہیں کہ جسکا اعلان خود وزیرِ اعظم نریندرا مودی نے 5 سال پہلے کیا تھا۔اس اعلان کو عملی جامہ پہنایا گیا ہوتا تو آج کے حالات میں یہ اسپتال ایک بڑی راحت ثابت ہورہا ہوتا تاہم پانچ سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود بھی اسکا کہیں وجود نہیں ہے۔
کشمیر میں ایمز کا قیام وزیرِ اعظم ترقیاتی پیکیج (پی ایم ڈی پی) کا ایک حصہ تھا جسکا اعلان بڑے طمطراق کے ساتھ خود وزیرِ اعظم نے 7 نومبر 2015 کو کیا تھا کہ جب جموں کشمیر ایک ریاست تھی۔اس منصوبے کا اعلان کرتے وقت اسکے بڑے فائدے گنوائے گئے تھے اور خواص کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی یہ سوچ کر اسکا خیرمقدم کیا تھا کہ اس سطح کے اسپتال کا قیام وادیٔ کشمیر میں ہی نہیں بلکہ (اُسوقت کی) ساری ریاست میں جدید اور اعلیٰ ترین طبی سہولیات کی عدم دستیابی کا جواب ہوگا۔حالانکہ اس طرح کا اسپتال اکیلے وادی میں ہی نہیں بننے جارہا تھا بلکہ مرکزی سرکار کی 4000کروڑ روپے کی اعانت سے جموں اور کشمیر میں یہ دو اسپتال بننے جا رہے تھے۔ منصوبے کا باضابطہ اعلان کئے جانےکے بعد مرکزی سرکار کو اسے جنوری 2019 میں باضابطہ منظوری دینے میں چار سال لگے جبکہ منصوبہ کیلئے اولین چار ہزار کروڑ روپے کے تخمینہ کو بدل کر اسے 3489 کروڑ روپے تک محدود کر دیا گیا۔حالانکہ جموں کے وجے نگر میں بننے جارہے ایمز کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے لیکن کشمیر کے اونتی پورہ میں سنٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ(سی پی ڈبلیو ڈی) کو تقریباََ 1890کنال اراضی سونپ دئے جانے کے باوجود مجوزہ ایمز کا ٹینڈر نکالنا تک ابھی باقی ہے۔
سرکاری کاغذات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مجوزہ ایمز 750 بستروں والا اسپتال ہوگا جس میں روزانہ کم از کم 1500مریضوں کو دیکھے جانے کی صلاحیت ہوگی۔اتنا ہی نہیں بلکہ ایمز کے ساتھ منسلک کالج میں سالانہ 100 ایم بی بی ایس داخلے ہونے تھے جبکہ قریب قریب اتنے ہی امیدواروں کو بی ایس سی نرسنگ کیلئے بھرتی کیا جانے والا تھا۔اس سے کے علاوہ اس ادارے کے قیام کے نتیجہ میں ہزاروں مواقعٔ روزگار پیدا ہونے کی امید تھی لیکن جب پانچ سال کے عرصہ میں اسکا ٹینڈر تک نہیں نکالا جاسکا ہے تو اسکے پایہ تکمیل کو پہنچنے کے حوالے سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ موجودہ وقت میں وادیٔ کشمیر میں اعلیٰ سہولیات والے طبی مراکز کی بڑی ضرورت ہے لیکن محض سیاسی اعلانات سے ضرورتیں پورا نہیں کی جا سکتی ہیں۔ بشیر احمد نامی ایک دکاندار کا کہنا ہے ’’سرکاری اعلانات کو سنجیدگی سے لیں تو پھر کشمیریوں کے ہاتھ میں چاند تارے دئے جانے والے ہیں لیکن زمینی صورتحال مایوس کن ہے‘‘۔ غلام علی نامی ایک اور شہری کا بھی ایسا ہی ماننا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’پانچ سال پہلے جب یہاں ایمز کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ یہ ادارہ بس کام شروع کرنے ہی والا ہے لیکن دیکھیئے کہ عملی طور ابھی دلی دور ہے‘‘۔سرینگر کے صدر اسپتال کے ایک سینئر ڈاکٹر نے، انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر، بتایا ’’اگر وادی میں ایمز کے معیار کا ادارہ قائم ہوجائے تو بڑی بات ہے لیکن کہنے اور کرنے میں فرق ہوتا ہے،جیسا کہ سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے وزیرِ اعظم مودی کے اعلان کے ردِ عمل میں کہا تھا ایمز جیسے ادارے فقط عمارتوں کا ہی نام نہیں ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں ابھی تک عمارتیں تک کھڑا نہیں کی جا سکی ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ’’میرے خیال میں تعلیمی اداروں اور طبی سہولیات کیلئے سالہا انتظار نہیں کیا جاسکتا ہے، ایسے ادارے انتہائی ضرورت کے ہیں لہٰذا انہیں وقت پر قائم کیا جانا چاہیئے‘‘۔