مغربی ممالک اپنے مفادات کے کس حد تک جاسکتے ہیں، اس کا اندازہ غزہ پر حالیہ جارحیت اوراس پر خاموش رہ کر تائید کرنے والے اور کھلم کھلا مدد کرنے والے ممالک کے رویہ سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ بیس ہزار سے زائد بے گناہوں سے خون سے رنگے ہاتھ، امریکہ کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کے جانبدارانہ بیان بازی، مظلوموں پرڈھائے جانے والے مظالم سے چشم پوشی اس بات کی گواہ ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے تئیں ان ’طاقتوں‘ کے موقف کھوکھلے ہیں۔ امریکہ نے اپنی پروردہ صہیونی طاقت کی علمبردار اسرائیل کو بچانے اوراس تک ہتھیاروں کی سپلائی بلا روک ٹوک پہنچانے کے لیے ایک نیا اتحاد بنا لیا ہے اور سمندر میں آگ لگانے کا وطیرہ اختیار کیا ہے۔ اس سے اس اندیشے کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان خارجی طاقتوں کے عزائم ناپاک ہیں اور صرف اور صرف ذاتی مفادات کو محفوظ تربنانے کے لیے امریکہ کی قیادت میں ایک کثیر ملکی فورس کا اعلان کیاہے جو بحراحمر میں تجارتی بحری جہازوں کو تحفظ فراہم کرے گا۔ اس کثیرملکی فوج میں اکثرممالک کا تعلق ناٹو سے ہے۔ یہ فوجی بحراحمر میں تجارتی جہازوں کونشانہ بنانے کی کوششوں کاجواب دیں گے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے حوثی لیڈر عبدالملک الحوثی نے وارننگ دی ہے کہ اگر امریکہ نے کوئی حماقت کی اور حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی تواس کا منہ توڑجواب دیاجائے گا۔ ہم پرحملہ کرنے والے امریکی جہازوں، مفادات کے میزائل ڈرون اور فوجی کارروائی کے ذریعہ نشانہ بنایاجائے گا۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد اب بحراحمر اور گرد ونواح میں کشیدگی بڑھنے سے اس علاقے میں قتل وغارت گری پھیلنے کا اندیشہ قوی ہوتا جارہاہے۔
غزہ میں 20ہزار افراد کی ہلاکت کے بعد بھی اسرائیل کا وحشیانہ حملے برقرار ہے۔ امریکی صدر نے ایک مختصربیان میں کہاہے کہ ان کو نہیں لگتا کہ غزہ میں عن قریب کوئی جنگ بندی ہوگی۔ ان کے اس بیات کے تناظرمیں دیکھاجاناچاہیے جس میں انھوںنے اوران کی انتظامیہ کے دیگر اعلیٰ ترین افسران نے کہاتھا اورجس کا مفہوم تھا کہ وہ اسرائیل کی پالیسی کو طے نہیں کرتے،یعنی اسرائیل اپنے فیصلہ خود لیتاہے۔غزہ اور دیگر مقامات پر اسرائیل جو کچھ کررہاہے اس کے لیے امریکہ کے عہدیداران اور افسران ذمہ دارنہیں۔ اسرائیل اپنی خارجہ پالیسی اور دیگر اقدام اپنے طورپر کررہاہے۔ اس دوران امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن 20ہزار بے گناہوں کے قتل اور نسلی تطہیر کے لیے ذمہ دار اسرائیل کوایک بار پھر مظلوم قرار دے رہے ہیں۔ موصوف وہی ہیں جو امریکی وزیرخارجہ کی حیثیت سے اسرائیل پہنچے تو انھوںنے کہا کہ ’وہ ایک یہودی کی حیثیت سے اسرائیل آئے ہیں۔‘اس بیان کے بعد جب وہ سعودی عرب پہنچے تو سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان نے ان کو رات بھرانتظارکرایا اوررسمی سی ملاقات کرکے رخصت کردیا۔ اس واقعہ کے بعد وہ سعودی عرب کے پڑوسی ملکوں کے دورے کررہے ہیں مگر اب تک انھوں نے سرزمین مقدس کا رخ کرنے کی جرأت نہیں کی ہے اور اب پوری دنیا میں اسرائیل کی فوج کشی کا دفاع کررہے ہیں۔ اس کا واضح پیغام ہے کہ افغانستان، عراق، لیبیا میں معصوم لوگوں کے قتل عام کے بعد اب ارض فلسطین اور غزہ کانمبرہے اور اس معرکہ میں ارض فلسطین کے تمام خطوں میں جارحیت کو حمایت دینے والاامریکہ بہادر ہے۔سعودی عرب ایک طویل عرصہ سے یمن کے حوثیوں کے ساتھ برسرپیکار ہے مگر 7اکتوبر کے حملہ کے بعد حالات میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور امریکہ کے ذریعہ بحراحمر میں تجارتی جہازوں کی حفاطت کے نام پر جوفوجی گٹھ جوڑ بنارہاہے، سعودی عرب اور نہ ہی یواے ای اس گروپ میں شامل ہورہے ہیں۔ امریکی وزیردفاع نے بحراحمر میں تجارتی جہازوں کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی دباؤ پیدا کرنے کے لیے برطانیہ، بحرین، کناڈا، فرانس، اٹلی، نیدرلینڈر، ناروے، سیشلز اور اسپین کے ساتھ جہازوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے یہ ہتھکنڈہ اختیار کیاہے۔
امریکہ کواس بات کو بالکل پرواہ نہیں کہ غزہ میں کتنے بے گناہ اور عام شہری ہلاک ہورہے ہیں البتہ اس کا پورا زور اسرائیل کے تحفظ پر ہے۔ اسی دوران غزہ میں وزارت صحت نے کہا ہے کہ گزشتہ دنوں میں 390فلسطینیوں کی موت ہوگئی ہے اور 734لوگ زخمی ہوگئے ہیں۔ امریکہ کی ہٹ دھرمی اور اندھی حمایت کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں جنگ بندی پر ووٹنگ کئی دن سے ٹالی جارہی ہے۔ اس دوران اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی ایک تہائی آبادی 576,000افراد بھوک اورفاقہ کشی کے شکار ہیں، جن کو دو وقت کی روٹی اور پینے کے لیے پانی میسرنہیں ہے۔ اسی طرح کے دلخراش مناظرمیڈیا اور سوشل میڈیا پرگردش کررہے ہیں اور اس صورت حال کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔n
20ہزار اموات کے بعد بھی اسرائیل ’مظلوم‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS