فلسطینیوں کو یوروپی ممالک کی حمایت

0

امریکہ اور یوروپی یونین فلسطینی اتھارٹی کو بہت سے اہمیت دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں طاقتوں نے 1992-95کے اوسلوسمجھوتے کوحقیقت بنانے میں کافی کلیدی رول ادا کیاتھا۔ آج کے حالات میں بھی حماس کے مقابلے میں یوروپی یونین اورامریکہ پی ایل او کے سیاسی بازو کو کسی بھی دوسرے ادارے کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ 7اکتوبر 2023کے بعد تو پوری دنیا نے محمودعباس کی سیاسی قیادت والی پارٹی الفتح کو اس ادارے پر قابض ہونے کے بعد اورزیادہ اہمیت دینی شروع کردی ہے۔ دوماہ قبل یوروپین یونین (ای یو)کے خارجہ پالیسی کے چیف جوزف بوریل نے برسلز میں صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کی اور ان کی پارٹی کو غزہ میں اقتدار منتقل اور دائرہ کار کو پھیلانے کے پیچیدہ امور پر غور کیا ہے۔ یوروپ کے کئی ممالک یوروپین یونین کے سابقہ موقف سے آگے بڑھ کر فلسطینی اتھارٹی کو ایک مملکت کے طورپر تسلیم کرچکے ہیں اور گزشتہ دوماہ میں جتنی اسرائیل کی سفاکی اورہٹ دھرمی بڑھی ہے، اتنا ہی ان ممالک کی فلسطینیوں کے تئیں ہمدردی اور قربت میں اضافہ ہوا ہے۔
یوروپ کے کئی ممالک انفرادی طورپر فلسطین کو حریت پسندوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان ممالک میں اسپین، آئرلینڈ، ناروے جیسے ممالک بہت پیش پیش رہے ہیں۔ اسکیونڈین ملک ناروے علم وفن اور سفارت کاری کے امور میں یوروپ کے دوسرے ممالک سے زیادہ حساس اور بیدار ہے۔ 1992-95کے فلسطین- اسرائیل سمجھوتے میں ناروے نے غیرمعمولی اورپردہ کے پیچھے رہ کر بہت کام کیا ہے۔ مگراب تک اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مصالحت کرانے کے باوجود ناروے کاجھکاؤ اسرائیل کی طرف رہا ہے، مگراب ناروے نے دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ نام نہاد توازن والی پالیسی کو ترک کرکے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کردیاہے۔ ناروے نے یہ غیرمعمولی قدم اٹھا کر اسرائیل اوراس کے اندھے حمایتیوں پر لگام کسی ہے۔ ان ممالک کا کہناہے کہ بے گناہوں کوقتل کرنا اور ایک آزاد قوم کو غلام بناکر رکھنا درست نہیں ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ دراصل اسرائیل حماس کے خلاف جنگ چھیڑ کر فلسطینیوں کو بحیثیت قوم دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کرتاہے اس پر تمام اہم طاقتیں اور ممالک متفق ہیں۔ اسرائیل اب حماس کے ساتھ فلسطین کی حریت کے لیے سرگرم تمام تنظیموں اور افراد کو نشانہ بنارہا ہے، غزہ میں اس کا ارادہ جنگ بندی کانہیں ہے، ساتھ ہی اس نے مغربی کنارے کو بھی بالکل غزہ کی طرز پر کارروائی شروع کردی ہے اور مغربی کنارے میں کارروائی کا فرق صرف اتنا ہے کہ اسرائیل کو یہ خیال رکھناپڑتا ہے کہ اس کی بمباری اورفوجی کارروائی کی زد میں یہودی آبادی نہ آئے اور اس سے میزائل داغنے اور بم برسانے کی آزادی اس کو مغربی کنارے میں میسرنہیں ہے۔ مگر اس پابندی کا فائدہ فلسطینیوں کو نہیں مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو نوآبادیہودیوں کی دہشت پسند اور تربیت یافتہ رضاکاروں کو استعمال کیاجارہا ہے جو لگاتار فلسطینیوں کے خلاف تشدد پرآمادہ رہتے ہیں اور اسرائیل کے حکام فوجی اور پولیس اہلکاراسرائیلیوں کاساتھ دیتے ہیں۔ مغربی کنارے پر اسرائیل جو کچھ کررہا ہے وہ بین الاقوامی قوانین اورانسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ یہودی کالونیوں کی تعمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ یوروپی یونین لگاتار اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھارہی ہے۔
کئی عرب اور مسلم ممالک یوروپ کے ان ممالک کے ساتھ اچھے تال میل کے ساتھ اسرائیل کے خلاف رائے عامہ ہموار کررہے ہیں۔ سعودی عرب، مصر، اردن، قطر، متحدہ عرب امارات اور تیونس جیسے مالک اسپین، ناروے، آئر لینڈ، فرانس کے ساتھ اعلیٰ سطحی مذاکرات کے ذریعہ فلسطین کو ایک آزاد اورخودمختار ملک کا درجہ دلانے میں اخلاص کے ساتھ سرگرم ہیں۔ امریکہ کے وزیرخارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر وغیرہ بھی اسرائیل پر سفارتی دباؤ ڈال کر نہ صرف غزہ میں اسرائیل کی بمباری اورسفاکی کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق آزاد اورمکمل اقتداراعلیٰ دلانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS