روس سے یوروپ کو اندیشہ

0

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یوروپ میں بڑی حد تک امن رہا ہے اور کوئی بڑی جنگ طویل عرصے تک نہیں چلی ہے۔ یوکرین جنگ کی یوروپی ممالک کے لیے اسی لیے بڑی اہمیت ہے۔ اس جنگ نے انہیں اندیشوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کیا انہیں یہ لگتا ہے کہ یوکرین کی شکست روس کے لیے حوصلہ افزا ہوگی، اس جنگ کی توسیع ہوسکتی ہے، روسی صدر پوتن روس کو سوویت یونین بنانے کی کوشش کریں گے، ناٹو کے خلاف وارسا پیکٹ جیسا کوئی گروپ بنانے کی کوشش کریں گے اور اس گروپ کو بنانے کے لیے یوکرین جنگ کی توسیع کی جا سکتی ہے؟ فی الوقت دعویٰ سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے بدلے ہوئے حالات کو امریکہ اور یوروپی ممالک کے لیڈران سمجھ رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جو اب تک روسی صدر ولادیمیر پوتن کی تعریفیں کیا کرتے تھے اور بظاہر یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی سے زیادہ روسی صدر کو اہمیت دیا کرتے تھے، اب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ امریکہ، یوکرین کو وہ ہتھیار دے گا جن کی اسے ضرورت ہے۔ ٹرمپ نے واضح طور پر یہ نہیں بتایا ہے کہ یوکرین کو کن ہتھیاروں کی ضرورت ہے؟ امریکہ، یوکرین کو کون سے ہتھیار دے گا؟ ان کا کہنا ہے، ’پوتن نے واقعی بہت سے لوگوں کو چونکا دیا ہے۔ وہ اچھی باتیں کرتے ہیں اور پھر شام کو سب پر بم گرا دیتے ہیں۔ تو اس میں تھوڑا مسئلہ ہے۔ مجھے یہ پسند نہیں ہے۔‘مگر ایسا ٹرمپ بھی کرتے ہیں۔ ان کی طرف سے غزہ جنگ ختم کرانے کی بات کہی گئی تھی اور انہیں کی طرف سے ’غزہ پلان‘ پیش کیا گیا تاکہ اہل غزہ کو مصر اور اردن میں بساکر غزہ کو ساحلی تفریح گاہ بنایا جاسکے۔ اس کے بعد سے جنگ جاری ہے۔ ایسی صورت میں پوتن ان سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ انہوں نے کون سا وعدوں کا پاس رکھا ہے؟

امریکی صدر ٹرمپ روسی صدر پوتن کی حکمت عملی سے نہ جانے کیوں چونک گئے جبکہ یہ بات انہیں سمجھنی چاہیے کہ جب پوتن سے جنگ ختم کرانے کے لیے وہ باتیں کر رہے تھے تو روس کے اندر تک کے کئی علاقوں پر یوکرین نے حملہ کرکے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ جنگ صدر امریکہ کے کہنے سے نہیں، یوکرینی صدر کے چاہنے سے ختم ہوگی جبکہ زیلنسکی روس کو جواب دینا چاہتے ہیں، فی الوقت جنگ ختم کرنے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔ یوروپ کے ملکوں کا ساتھ یوکرین کو حاصل ہے۔ یوروپی ممالک بھی یہی چاہتے ہیں کہ یوکرین، روس کو دندان شکن جواب دیتا رہے تاکہ پوتن کا روس جنگ کی توسیع کا حوصلہ نہ دکھا سکے۔ اس کے لیے یوروپی ممالک تیاری بھی کر رہے ہیں۔ ان کے بیانات سے ان کے اس موقف کو سمجھنا ناقابل فہم نہیں ہے۔ مثلاً : فرانسیسی صدر ایمینوئل میکروں نے اپنے ملک فرانس کے قومی دن سے پہلے کی شام قوم کے لوگوں سے خطاب میں کہا ہے کہ ’اس وقت یوروپ کی آزادی کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ آزاد رہنے کے لیے ڈر پیدا کرنا ہوگا۔ میکروں نے فرانس کے دفاعی بجٹ کو دو سال میں دگنا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ غالباً اس اعلان کا مقصد ہتھیاروں کے پروڈکشن میں اضافہ کرنا، نئے ہتھیار بنانا، اپنی طاقت کا اس طرح اظہار کرنا ہے کہ ڈر پیدا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایمینوئل میکروں کا فرانس ولادیمیر پوتن کے اس روس میں ڈر پیدا کرنے میں کامیاب ہوپائے گا جس کے پاس امریکہ سے زیادہ ایٹم بم ہیں؟ فرانسیسی صدر میکروں نے روس کی ’علاقوں پر قبضہ کرنے ‘ کی پالیسی کی مذمت کی ہے۔ ان سے قبل 13 جولائی، 2025 کو فرانسیسی فوج کے سربراہ تھیئری برک ہارڈ نے یہ بات کہی کہ ’روس، فرانس کو ’’یوروپ میں اپنا کلیدی مخالف‘‘ مانتاہے۔‘برک ہارڈ یوروپ کے لیے روس کو ایک ’مستقل‘ خطرہ مانتے ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’ آنے والی دنیا میں یوروپی ممالک کی حالت یوکرین میں طے ہو رہی ہے۔‘اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یوکرین جنگ امریکہ اور اس کے اتحادی یوروپی ممالک کے لیے کتنی اہمیت کی حامل ہے، اس کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں لیکن حالات سے بے خبر روس بھی نہیں ہے۔ چین اور شمالی کوریا سے روس کی بڑھتی قربت یوں ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ ہے۔ پوتن کا روس بدلتے حالات کی مناسبت سے تیاری کر رہا ہے، خود کو وہ اس پوزیشن میں رکھنا چاہتا ہے کہ اسے چونکنا نہ پڑے لیکن یہ باتیں عالمی امن کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگاتی ہیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS