اردگان کی شام پر نئے حملہ کی دھمکی کا مطلب

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

ملک شام کے شمالی خطہ میں بسنے والے لوگ ان دنوں ایک نئے لیکن مشکل دور کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ یہ مرحلہ ایک نئی جنگ کا ہے جس کا آغاز بس ہوا ہی چاہتا ہے۔ شامیوں کی زندگی میں اب جنگ اور اس سے وابستہ مسائل و مشکلات کو جھیلنا تقریباً روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ 2011 میں عرب بہاریہ نامی عوامی تحریک جب سے مسلح جنگ میں تبدیل ہوگئی تب سے آج تک وہاں کے عوام کو سکون میسر نہیں ہوسکا ہے۔ مشرق وسطیٰ ویسے تو بیسوی صدی کے آغاز سے ہی مغرب کی سامراجی قوتوں کے لیے ایک جولان گاہ بنا ہوا ہے لیکن شام کی خانہ جنگی نے خاص طور سے سرد جنگ کے عہد کی دو قوتوں یعنی امریکہ و روس کو دوبارہ سے وہاں قدم جمانے اور اپنی جدید استعماری پالیسیوں کو نافذ کرنے کا بہانہ فراہم کر دیا۔ اس خطہ میں روس کو سب سے زیادہ اسٹرٹیجک فائدے حاصل ہوئے کیونکہ جب امریکہ نے شام کے مسئلہ کو حل کرنے میں بے دلی کا مظاہرہ کیا تو روس نے اس خلا کو پر کرنے اور جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے شامی صدر بشار الاسد کو بچانے میں ادنیٰ درجہ کی تاخیر سے کام نہیں لیا۔ روس کے لیے اس میں دو فائدے تھے: ایک تو مشرق وسطیٰ جیسے اہم خطہ میں پاؤں جمانے اور امریکی اثر و رسوخ کو ختم کرکے اپنا دبدبہ قائم کرنے کا دیرینہ خواب پایہ تکمیل کو پہنچ رہا تھا دوسرے روسی فیکٹریوں میں تیار ہونے والے مہلک ترین ہتھیاروں کے تجربہ کے لیے جو میدان اور بے قصور انسانی زندگیاں مطلوب تھیں جن پر بمباری کرکے دنیا کے سامنے اس بات کا مظاہرہ کیا جائے کہ روس کے پاس اہم اور جدید ترین ہتھیار موجود ہے وہ جانیں بھی شام میں مہیا ہوگئیں اور اس کے بعد روس نے پوری بے دردی اور سفاکیت کے ساتھ بشار الاسد کی اجازت سے شامی بچوں، عورتوں اور مردوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ شام میں روسی بموں کی ہولناکی کا عالم یہ ہوتا تھا کہ انسانوں سے آباد بستیاں چشم زدن میں ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی تھیں۔ جو لوگ زندہ بچ جاتے تھے ان پر خوف اور دہشت کا ایسا اثر ہوتا تھا کہ مانو انہیں زندگی پر یقین کرنا مشکل ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ عزیزوں اور رشتہ داروں کو کھو دینے، گھر بار و سامان زندگی سے محرومی اور اپنے ہی ملک یا ملک سے باہر پناہ گزینی کی زندگی بسر کرنے کا جو غم ہوتا تھا وہ اس پر مستزاد ہے۔ روس کو اس کا فائدہ بڑے پیمانہ پر ملا۔ پوری دنیا میں اس کے ہتھیاروں کو خریدنے کی ہوڑ سی لگ گئی اور روسی فوجوں کو جنگ کی مشق مفت میں حاصل ہوگئی جس کا فائدہ وہ ان دنوں یوکرین میں اٹھا رہا ہے۔ شام میں جاری خانہ جنگی کا فائدہ کرد جماعتوں نے بھی اٹھایا۔ کرد کئی دہائیوں سے ایک آزاد کرد اسٹیٹ کا خواب آنکھوں میں سمائے ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ شام و عراق و ایران اور ترکی کے علاقوں میں بسنے والے کردوں کو متحد کرکے ایک مضبوط اور آزاد اسٹیٹ قائم کیا جائے جہاں ان کی زبان، تہذیب اور تاریخ کو فروغ کا موقع ملے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کام کرنے والی جماعت پی کے کے یا کرد ورکرس پارٹی کے نام سے معروف ہے۔ اس کا جماعت کی مسلح تنظیم کا نام وائی پی جی یا پیپلز پروٹیکشن یونٹ ہے۔ پی کے کے اور وائی پی جی دونوں ہی جماعتیں ترکی کی نظر میں دہشت ہیں اور ترکی اسٹیٹ کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کی جاتی ہیں۔ ترکی چونکہ ناٹو کا ممبر ملک ہے اس لیے اس کی توقع یہ ہوتی ہے کہ تمام ناٹو ممبران بھی ان تنظیموں کو دہشت گردوں کی فہرست میں رکھیں۔ لیکن سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ناٹو کا اہم ترین ملک امریکہ ہی ترکی کی اس امید پرپورا نہیں اترتا اور وائی پی جی کو دہشت گرد جماعت نہیں گردانتا جبکہ اس پی کے کے امریکہ کی نظر میں بھی دہشت گرد تنظیم شمار کی جاتی ہے۔ اسی مسئلہ پر ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے تھے جو اب تک درست نہیں ہوئے ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ چونکہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کے خلاف جنگ میں وائی پی جی اس کا اہم حلیف رہا ہے اور ابھی تک داعش کا خطرہ ٹلا نہیں ہے اس لیے وائی پی جی جیسی تنظیم سے دست برداری امریکی مفادات کے خلاف ہے اس لیے اس مسئلہ پر کوئی پیش رفت بھی نہیں ہو رہی ہے۔ لیکن ترکی کو خوب معلوم ہے کہ یوکرین پر روسی جارحیت کے بعد سے اس کی اہمیت کس قدر بڑھ گئی ہے اور اسی لیے صدر طیب اردگان امریکہ اور یوروپ سے اپنے مفادات کے احترام کے لیے دباؤ بنا رہے ہیں جس کا مظاہرہ فن لینڈ اور سویڈن کی ناٹو میں شمولیت کو روک کر ترکی نے کیا ہے۔ بدلے ہوئے حالات میں اس کا امکان ہے کہ امریکہ ترکی کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا کیونکہ فن لینڈ اور سویڈن کی ناٹو میں شمولیت سے یوروپ کا خیمہ مضبوط ہوگا جس کی سخت ضرورت امریکہ محسوس کر رہا ہے۔ ساتھ ہی فن لینڈ اور سویڈن کو بھی ترکی کے مطالبات کو قبول کرنا ہوگا اور پی کے کے اور وائی پی جی کے علاوہ 2016 کی فوجی بغاوت میں شامل ان مبینہ ملزمین کو بھی ترکی کے حوالہ کرنا ہوگا جو ان دونوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ 2019 میں پی کے کے والے علاقہ پر ترکی کی فوجی کارروائی کے نتیجہ میں سویڈن اور فن لینڈ نے ترکی کے ہاتھوں ہتھیار کی فروختگی کا جو سلسلہ روک دیا تھا اس کو بھی شروع کرنے پر یہ دونوں ممالک مجبور ہوں گے۔ ترکی ان حالات میں اپنی اہمیت سے خوب واقف ہے اور اس کا فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ ترکی کی اسی اسٹرٹیجک اہمیت کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ ماہ صدر اردگان نے اس بات کا اعلان کر دیا کہ شام کی زمین میں تیس کلو میٹر اندر تک وہ محفوظ علاقہ یا Buffer Zone تیار کرنے کے اپنے مقصد کی تکمیل کرنے جا رہے ہیں۔ شام کا یہ علاقہ ترکی کی جنوبی سرحد سے متصل ہے اور امریکہ کی حلیف شامی کرد مسلح جماعت وائی پی جی کے کنٹرول میں ہے۔ 2019 میں بھی اردگان یہ زون بنانا چاہتے تھے جس کی خاطر انہوں نے ملٹری آپریشن بھی کیا تھا لیکن اس کے حصول میں اس وقت ناکام ہوگئے تھے۔ صدر اردگان نے اس وقت کہا تھا کہ ’’ہم ایک رات اچانک ان پر حملہ آور ہوں گے اور ہم ایسا کرکے رہیں گے۔‘‘ انہیں اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس مقصد کے حصول کا وقت آگیا ہے اور اسی لیے اس کی خاطر ملٹری آپریشن کی دھمکی دے رہے ہیں۔ یہ محفوظ خطہ یا بفر زون قائم کرنے کے پیچھے ترکی کا مقصد یہ ہے کہ وہاں ترکی میں پناہ گزیں شامی پناہ گزینوں میں سے تقریباً دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بسا دیا جائے اور اس خطہ کا نظم و انصرام ترکی کی حلیف جماعت ڈیموکریٹک سیرین فورسز کے حوالہ کر دیا جائے۔ ترکی اگر شام میں یہ فوجی کارروائی شروع کرتا ہے تو یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہوگا جب وہ ایساکرے گا۔ ترکی 2016 سے اب تک تین بڑی فوجی کارروائیاں کر چکا ہے اور ان حملوں کے نتیجہ میں ترکی نے شام کی اراضی کو اپنے قبضہ میں کر لیا ہے جن میں خاص طور سے عفرین، تل عبید اور جرابلوس شامل ہیں۔ ترکی کے صدر نے یکم جون کو اپنے نئے پلان میں اب یہ اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ کے اپنے ملٹری آپریشن میں تل رفعت اور منبج جیسے علاقوں پر قبضہ کریں گے کیونکہ ان علاقوں کا استعمال کرد دہشت گرد تنظیم وائی پی جی ترکی کی حلیف شامی جماعت کے قبضہ والے علاقہ پر حملہ کے لیے کرتی ہے۔ اس بار مزید اس خدشہ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شاید ترک فوجیں شام کے سرحدی شہر کوبانی میں بھی داخل ہونے کی کوشش کریں گی۔ کوبانی بہت اہم سرحدی شہر ہے کیونکہ اسی شہر کو پہلی بار امریکی ملٹری اور وائی پی جی نے مل کر داعش سے 2015 میں آزاد کروایا تھا۔ یہ شہر کردوں کے لیے اس لیے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اس کو اپنے مستقبل کے خوابوں کی تعبیر کے لیے ایک نمایاں علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن اس پورے مسئلہ میں ترکی کے لیے دقت یہ ہوسکتی ہے کہ کہیں وہ تل رفعت اور کوبانی میں ملٹری آپریشن کے نتیجہ میں روس کے ساتھ تلخی میں اضافہ نہ کرلے کیونکہ ان دونوں جگہوں پر روس کی موجودگی پائی جاتی ہے۔ اب صرف دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی ترکی فوجی کارروائی کے لیے اس وقت سنجیدہ ہے؟ بظاہر تو ایسا لگتا ہے ترکی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کر رہا ہے۔ ابھی تک ترکی کی فوج کو حرکت میں آنے کا حکم تو نہیں دیا گیا ہے لیکن یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ترکی اگر چاہے تو اپنی فوج کو بہت جلد حرکت میں لا سکتا ہے۔ جہاں تک وائی پی جی کا تعلق ہے تو ان کی قیادت یہ کہہ رہی ہے کہ ہم اس دھمکی کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور جنگ کی تیاری شروع کر دی ہے۔ صدر اردگان اس لیے بھی یہ فوجی کارروائی شام میں کر سکتے ہیں کہ روس ابھی یوکرین میں الجھا ہوا ہے اور فن لینڈ اور سویڈن کو ناٹو کا حصہ بنانے کے لیے امریکہ کو ترکی کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم اشارہ یہ ہے کہ آئندہ برس ترکی میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں۔ لہٰذا کرد مسلح جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائی کرکے وہ اس الیکشن کو جیتنے کی کوشش ضرور کریں گے جیسا کہ ماضی میں صدر اردگان کر چکے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو انہیں اپنے عوام کو بتانا ہوگا کہ آخر ان کی اقتصادی پالیسی ناکام کیوں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح 73.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS