انجینئر خالد رشید (علیگ)
گزشتہ ایک سال سے بی جے پی کے دل میں پسماندہ مسلمانوں کے لیے جو پیار امڈ رہا تھا وہ اس وقت اور بھی زیادہ نمایاں ہو گیا جب وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں پارٹی ورکروں سے یہ اپیل کی کہ وہ سماج کے سبھی طبقات تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔اس سے پہلے بھی گزشتہ سال جولائی میں قومی مجلس عاملہ کے خطاب میں مودی جی کی تقریر کے بعد بی جے پی کے کچھ لیڈروں کے سر تبدیل ہوگئے تھے ۔یوپی کے نائب وزیرا علیٰ کیشو پرساد موریہ بھی پسماندہ مسلمانوں کی شان میں قصیدے پڑھنے لگے تھے۔ ایک بیان میں انہوں نے تو یہاں تک کہ دیا تھا کہ اگر مسلمانوں نے ہمیں اسی طرح ووٹ دیا جیسے وہ سماج وادی کانگریس اور مایاوتی کی پارٹی کو دیتے رہے ہیں تو ہم انکے چوکیدار بن جائیںگے۔ ہوسکتا ہے وہ یہ کہنا چاہتے ہوں کہ اگر مسلمان ان کی پارٹی کو ووٹ دیں تو بی جے پی انکی محافظ بن جائے گی ۔انہیں ماب لنچنگ سے بچا لے گی، حجاب کا تنازع ختم ہو جائے گا، جگہ جگہ انکو زبردستی پکڑ کر جے شری رام کے نعرے نہیں لگوائے جائیں گے ،لیکن موریہ جی ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں انہوں نے محافظ کی جگہ چوکیدار لفظ کا استعمال زیادہ مناسب سمجھا۔ دراصل بی جے پی کی پالیسی بالکل ایسی ہی ہے، ایک زمانے میں دلت عورتوں کو اپنا سینا ڈھکنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور اگر وہ اپنے سینے کو ڈھکنا چاہیں تو انکو ایک خاص قسم کا ٹیکس چکانا پڑتا تھا ۔موریہ جی کا مطلب بھی یہ تھا کہ اگر مسلمان اپنی حفاظت چاہتے ہیں تو ان کے ساتھ آ جائیں۔ بی جے پی اور سنگھ نے پہلے تو مسلمانوں کے دلوں میں ایک خوف کا ماحول پیدا کیا اور جب وہ خوف سے پریشان ہونے لگے تو انکی حفاظت کا سودا ان کے ووٹ کی شکل میں وصول کرنے کے فراق میں ہے۔ مجھے ایک قصہ اس طرح یاد آتا ہے کہ گائوں کا ایک دادا قسم کا لڑکاشہر میں پڑھتا تھا کئی بار کالج میں فیل ہوکر وہ واپس گائوں چلا گیا اور روزی روٹی کے لالے پڑ گئے ۔ گائوں میں مویشیوں کا میلہ کسی زمین دار کی زمین میں لگا کرتا تھا زمین دار کو اچھی خاصی آمدنی ہر ہفتہ ہو جایا کرتی تھی۔ اس لڑکے کے ذہن میں ایک پلان آیا ۔وہ شہر آیا اور اپنے دوستوں سے کہا کہ اگلے ہفتہ تم لوگ گائوں آکر اس بازار کو لوٹ لو۔ دوستوں نے اس کی بات مان لی اور بازار لوٹ لیا۔ چندروز بعد پھر اس نے اپنے دوستوں سے بازار لٹوایا اور پھر وہ گائوں کے پردھان کے پاس گیا اور یہ آفر دیا کہ اگر وہ بازار اسکی زمین میں لگنے لگے تو وہ گارنٹی دے گا۔ بازار اس کی زمین میں لگنے لگا اور پھر کبھی نہیںلوٹ مچی۔ کیشو پرساد موریہ کا بیان بھی اسی زمرہ میں آتا تھا اور مسلمانوں نے اس کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں لیا لیکن اب ایک بار پھر بی جے پی کے سب سے بڑے لیڈر کو پسماندہ مسلمانوں کی فکر پھر سے ستانے لگی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نتیش کے الگ ہو جانے اور او بی سی کی مردم شماری کا مطالبہ تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے کچھ او بی سی ووٹر بی جے پی سے ناراض ہیں، دوسرے یہ کے راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا بھی کچھ اثر بی جے پی کے ووٹ بنک پر پڑ سکتا ہے ،جس کو پورا کرنے کے لیے بی جے پی کو نئے شکار کی تلاش ہے۔اس لئے مودی جی کو پسماندہ مسلمانوں کی پسماندگی نظر آنے لگی ہے ۔ملک کی مسلم آبادی میں پسماندہ مسلمانوں کی تعداد 85% ہے بالکل اسی طرح جیسے ہندو سماج میں پسماندہ ہندں کی تعداد بھی 85% ہے۔ اس لیے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا لازم ہے وہ سنگھ اور بی جے پی جو آج تک ہندو پسماندہ ذاتوں کے مسائل حل نہ کر سکی وہ پسماندہ مسلمانوں کے مسائل کو کس طرح حل کرے گی اور کیا بی جے پی کی یہ پالیسی مسلم سماج کو بھی ہندو سماج کی طرح ذات پات کے خانوں میں تقسیم کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے؟
بی جے پی کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں اور ان مسلم لیڈروں کی ایک فہرست مرتب کریںجنہیں بی جے پی نے مسلمانوں کا نام ونہاد نمائندہ بنا کر ملک کے سامنے پیش کیا ا ن میں ایک بھی پسماندہ مسلمان کا نہ ہونا اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ مسلمانوں کے پسماندہ طبقات سے یہ نئی نئی محبت صرف مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی ایک کوشش سے ذیادہ کچھ بھی نہیں ہے ۔کیا بی جے پی کو اس بات کا جواب نہیں دینا چاہیے کہ ایم جے اکبر، مختار عباس نقوی، عارف محمد خاں، نجمہ ہبت اللہ ،محسن رضا اور سکندر بخت میں سے کون سا مسلم بی جے پی لیڈر پسماندہ تھا؟ لیکن چلیں کچھ دیر کے لیے یہ مان لیتے ہیں کہ بی جے پی واقعی پسماندہ مسلمانوں کے لیے فکر مند ہے اور وہ یوپی میں پہلی بار ایک انصاری کو وزیر بنا کر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتی ہے۔ ایسی صورت میں بی جے پی کو ایک سرکاری یا سیاسی احکام جاری کرنا چاہیے جس میںیہ واضح ہدایت ہو کے بلڈوزر پسماندہ مسلمانوں کے گھروں پر نہ چلائیں، مدارس کا سرو ے کرنے والوں کو یہ ہدایت ہو کہ ان مدرسوں میں نہ جائیں جو پسماندہ مسلمان چلا رہے ہوں۔ پسماندہ مسلمانوں کی لڑکیوں کونقاب پہننے کی آزادی ہو ۔بی جے پی اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ اگرکوئی مسلمان وزیربنے تو وہ پسماندہ ہو ۔حالانکہ اب تک بی جے پی کی جانب سے خصوصاً پسماندہ مسلمانوں کے حق میں کوئی قدم نہیں اٹھا یا گیا اور نہ ہی ان کے حق میںکسی بھی سطح پر کوئی ہدایت جاری کی گئی ہے ۔ایسے میں تو یہی سمجھا جائے گا کہ بی جے پی کی پسماندہ مسلمانوں سے محبت صرف مسلمانوں کو تقسیم کرنے کا ایک سیاسی ڈرامہ ہے ۔