انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ

0

اس میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے مرکزی ادارے اور تحقیقاتی ایجنسیاں حکمرانی کیلئے دست و بازو کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان ایجنسیوں کی پشت پرآئین کی آہنی دیوار کھڑی ہے جس کے پار اترنا ممکن نہیں ہے ۔ان ایجنسیوں کا وجود اور انہیں ملنے والے اختیارات نفاذ قانون اور بہتر حکمرانی کا لازمہ ہیں۔ لیکن اب ان ایجنسیوں کے استعمال اور طریق کار پر گزشتہ 8 برسوں سے مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں ۔کہاجارہاہے کہ یہ ایجنسیاں آزادانہ کام کاج کے بجائے مرکزی حکومت کے اشارے پر حرکت میں آتی ہیں اور حکومت کے سیاسی مخالفین کو تاک تاک کر نشانہ بناتی ہیں ۔ نفاذ قانون کے اپنے بنیادی کاز سے ہٹ کر حکومت اور حکمراں جماعت کا محض آلہ کار بن کر رہ گئی ہیں ۔ان کا کردار ایک کٹھ پتلی کی طرح ہوگیا ہے جو مرکز کے اشارے پر ریاستوں میں حکومت گرانے اور بنانے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں ۔
ان الزامات میں کتنی صداقت ہے یہ تو تحقیق و تفتیش کا موضوع ہے لیکن زبان خلق جو کہہ رہی ہے، اس سے گریز بھی ممکن نہیں ہے۔ حزب اختلاف یہ کھلا الزام لگارہاہے کہ گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران حکومت نے ان ایجنسیوں کو اپنابغل بچہ بنا لیاہے ۔یہ ایجنسیاں قانون کی حکمرانی کے بجائے حکمرانوں کا قانون نافذ کررہی ہیں۔ حالیہ چند برسوں کے دوران مرکزی ایجنسیوں کی سرگرمیوں کا مرکز حزب اختلاف اور غیر بی جے پی حکومت والی ریاستیںہیں۔ خاص کر مہاراشٹر اوراب مغربی بنگال جیسی ریاستیں ان ایجنسیوں کی چراگاہ بنی ہوئی ہیں ۔یہ صورتحال ملک کی جمہوریت، وفاقی ڈھانچہ اور نہ ان ایجنسیوں کیلئے ہی مناسب کہی جاسکتی ہے۔
چند برس قبل تک سی بی آئی کا دوردورہ ہواکرتاتھا مگرجب سے ریاستی حکومتوں نے ریاستی حدود کے اندر کے معاملات پر انہیں تفتیش و تحقیق کی اجازت دینے کا سلسلہ بند کیا ہے، ان کے ہاتھ بندھ گئے ہیں لیکن انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی) کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ یا ای ڈی وزارت خزانہ کے زیرا نتظام وہ ایجنسی ہے جو اقتصادی جرائم اور غیر ملکی زرمبادلہ کے قوانین کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کیلئے قائم کی گئی ہے ۔ 1956میں اپنے قیام کے بعد اس ایجنسی کے دائرۂ کار کی کبھی تحدید کی گئی تو کبھی توسیع۔ فی الوقت اس مرکزی ایجنسی کی ذمہ داریوں میں مالیات سے متعلق مختلف امتناعی قوانین کا نفاذ ہے ۔مالیات سے متعلق ہی منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے 2002میں پری وینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ(پی ایم ایل اے )بنایاگیا اور 2005میں اس کے نفاذ کی ذمہ داری بھی اسی ایجنسی کو سونپی گئی ۔اس کے علاوہ بھی اقتصادی جرائم سے متعلق کئی ایسے نئے قوانین بھی ہیں جن کے نفاذ کا جوا اٹھائے یہ ایجنسی ریاستوں میں حزب اختلاف کے رہنمائوں کو سینگ مارتی رہتی ہے۔
پے درپے اس ایجنسی کا شکار بننے والوں نے پری وینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ 2002کے تحت اسے گرفتاری اور قرقی و ضبطی کے حاصل اختیار کے جواز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہاتھا کہ ایجنسی تعزیراتی قوانین کے ضابطہ عمل کی پاسداری نہیں کرتی ہے، اس لیے پی ایم ایل اے کی ان تجاویزکوغیرآئینی قرار دیتے ہوئے انہیں ختم کیاجاناچاہیے لیکن عرضی گزاروں کے دلائل سے عدالت قائل نہیں ہوئی۔سپریم کورٹ نے پی ایم ایل اے میں ملزم کی گرفتاری، تلاشی، قرقی، ضبطی کے حق سمیت کئی دفعات کو باجواز قرار دیا ہے۔عدالت کے اس فیصلہ سے حزب اختلاف مطمئن نہیں ہے۔
عرضی گزار اور کانگریس ایم پی جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ حزب اختلاف کے رہنمائوں کے خلاف ای ڈی کی کارروائی میں تیزی کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔ان کے یہ خدشات ایسے نہیں ہیں کہ انہیں سرسری طور پر مسترد کردیاجائے۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ 17برسوں میںای ڈی انے پی ایم ایل اے 2002 کے تحت 5,422 مقدمات درج کیے ہیں جن میں سے فقط 992 مقدمات میں وہ عدالت میں فرد جرم داخل کرپائی ہے اور صرف 23 مقدمات میں ہی ملزمین کو سزادلانے میں کامیاب رہی ہے ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ تقریباً ساڑھے پانچ ہزار مقدمات میں سے نصف گزشتہ 8 برسوں کے دوران قائم کیے گئے ہیں اور ان کے 95 فیصد ملزمین کا تعلق حزب اختلاف سے ہے۔ اس عرصے کے دوران انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے شاذ و نادر ہی حکمراں بی جے پی سے وابستہ کسی رہنما کی چھان بین کی ہے یا سیاست دانوں کے ٹھکانوں پر چھاپہ ماراہے۔ حیرت تو یہ بھی ہے کہ ان گزشتہ 8برسوں کے دوران ای ڈی کو حکمراں جماعت کا ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ملا جس نے کوئی معاشی جرم کیا ہو۔ ایسے میں ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ مرکزی ایجنسیوں بالخصوص ای ڈی کو حکومت اپنے سیاسی کاز کیلئے کٹھ پتلی کی طرح استعمال کر رہی ہے اور حزب اختلاف کے ان خدشات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ ای ڈی کی کارروائی میں تیزی آئے گی ۔ اب یہ خود ای ڈی کے حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ’ آپریشن لوٹس‘ کی کلید بننے کے بجائے اپنے پیشہ ورانہ کردار کے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کریں ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS