شاہنواز احمد صدیقی
کووڈ19 -کے وباکے بعد جب انسانیت سانس لینے کو ترس رہی تھی اور ساری سرگرمیاں اسپتالوں ،شمشان گھاٹوںاور قبرستانوں تک سمٹ کر رہ گئیں تھیں۔ہرطرف موت کا سناٹا تھا،ہر آنکھ سے خون کے آنسو نکل رہے تھے اس وقت ایسا لگ رہاتھا کہ شاید انسان جو اشرف المخلوقات ہے ،پھر انسان بن جائے گا ،انسانیت کا سبق پڑھ لے گا، مگر آج کووڈ19-کی وبا کے تقریباً ختم ہونے کے بعد انسان اپنی انسانیت سوزی پر آمادہ ہوگیا ہے، ہرطرف لگتا ہے انسان کے بھیس میں ،بھیڑیے ہیں جو ایک دوسرے کو لقمہ اجل بنانے پرآمادہ ہیں ،آج یوکرین جل رہاہے۔پوری دنیا کے طاقتور ترین ممالک روس کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے برسرپیکار ہے اور گزشتہ 75سال سے ارض فلسطین میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔کسی کے کال پرجوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ 2011 میں جمہوریت کا سبز باغ دکھاکر دنیا کے ذرخیزترین اور قیمتی معدنیات سے مالا مال خطوں میںایشیا ، مغربی ایشیا اور مغربی افریقہ کے ملکوں میں بے چینی ،بداطمینانی اور عدم استحکام کا وہ دور شروع ہواور اس بہانے قتل وغارت گیرہوا س کوخوب ہوادی گئی۔اس کی تپش آج تک اور ابھی تک محسوس کی جارہی ہے۔ اس مدت میں تخت اچھالے گئے، تاج اچھالے گئے اور قحط سالی ، فاقہ کشی کے شکار ملکوں میں خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ مگر حالات کے کروٹ لے رہے ہیں اور بارہ سال کے تجربوںنے بتایا ہے کہ ہم جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں ، دراصل کسی کی سازش کا شکار تھے۔ہماری فوج جن لوگوں کو تختہ دار پرچڑھارہی ہے وہ ’نیوورلڈآرڈ‘اور وہ دنیا میں غریبوں کے خون کے پیاسے طاقتور ملکوں کا کھیل تھا اور یہ بندوق بردار محض کٹھ پتلی تھے۔
مغربی ایشیا کے ملکوں میں 2011کے بعد سے کیاہورہاتھا اور اب کیا ہورہاہے، اس کا جائزہ لینے کے لئے دفتر کے دفتر درکارہیں۔ہر ملک میں ان انسانیت اور جمہوریت کے علمبرداروں کے وہ انسانیت سوز حرکتیں کی ہیں جس کی مثال نہیں ملتی، یہ وہی سامراجی ممالک ہیں جنہوں نے ایشیا ،افریقہ کولوٹ کر اپنے تخت وتاج سجائے ہیں اور انہیں تاجوں کو پہن کر دنیا کو انسانیت اور جمہوریت کا درس دے رہے ہیں۔خانہ جنگی کے شکار ممالک میں آج مذاکرات، امن وامان اور رواداری کا سلسلہ شروع ہوا ہے ، مگر آج بھی ارض فلسطین لہولہان ہے، صہیونی طاقت نے دیگر طاغوتی طاقتوں کے ساتھ مگر ہزاروں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاہے اوراب بھی اتاراجارہاہے۔ ان کے گھروں پر قبضہ کرلیا، ان کے کھیتوں کو جلاڈالا، ان کے مویشیوں کو کھدیڑدیا، ماں باپ کو اولادوں سے جدا کردیا، ماں باپ کو شیر خوار بچوں کے جنازے اٹھانے کے لئے مجبور کردیا اور اس کے باوجود یہ طاغوتی نسل پرست طاقتیں مہذب ترقی یافتہ اور روشن خیالی کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہی ہیں۔
1992-93میں اوسلومعاہدہ ہوا اور لگا کہ شاید اب اس بدترین سانحات کی گوہ زمین میں امن قائم ہوجائے گا ، مگر ایسا نہیں ہوا۔بدقسمتی یہ امن معاہدہ استبدادی طاقتوں کو قوت دینے اور سامراجی ممالک کو استحکام کا سبب بنے۔ان طاغوتی طاقتوں کو عظیم پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واسطہ دے کر معاہدہ امن میں باندھنے کی کوشش کی گئی ، مگر اصل مسئلے مسئلہ فلسطین ، اپنی تمام شدتوں کے ساتھ برقرار رہا۔ آج مغربی ایشیا میں پھرکشت وخوں کا بازار گرم ہے ، وہ اسی اصل مسئلہ کو نہ حل کرنے اور ٹال مٹول کی سازش کا نتیجہ ہے۔ غزہ ایک کھلا ہوا قید خانہ ہے ، ایک بڑی آباد بدترین حالات اور جارحیت کے خطرے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔اسکولوں ، شفاخانوں ،پانی کے ذخائرکوجان بوجھ کر نشانہ بنایا جاتاہے تاکہ انسانیت سسک سسک کر دم توڑ دے اور اس قید خانے کی بلند وبالا آہنی دیوار وں سے آہ وبکا باہر نہ نکل سکے۔ زنجیربکف ہاتھوں کو جنبش کی اجازت نہیں ،غیر انسانی حرکتوں کے خلاف انتہائی بدترین حالات میں زندگی بسرکرنے والوں کو جبنش آبرو سے عمیق قید خانوں میں ڈال دیاجاتاہے، جہاں سے بھوک اور پیاس سے دم توڑدیتے ہیں۔اس کی بدترین مثال حال ہی میں جاں بحق ہونے والے قادرعدنان ہیں ، جن کی لاش کو بھی اسرائیل نے سودے باری کیلئے اپنے قبضہ میں رکھ چھوڑا ہے۔
یمن ، بحرین ،عراق ، شام جیسے خوشحال ممالک ،میں برادرکشی کے خاتمہ کی امید بندھی ہے۔بدگمانیوں اور عبادت وریاضت کے معمولی فرق کو نشانہ بناکر ایک دوسرے کے خون کاپیاسا بنانے کی سازشیں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ عراق کی بڑی آبادی کو ختم کرکے اس عظیم تہذیب کے علمبردار ملک کو برباد کرنے ،انبیاء اوررسولوں کی سرزمین شام کو تہس نہس کرنے ، لیبیا کے امن خوشحالی ، ترقی کو تباہ کرنے ، افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد بھی ان طاغوتی طاقتوں کی ہوس پوری ہوتی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ استبدادی فوجیںان ملکوں سے نکلنے کے لئے تیارہیں۔
گزشتہ ایک ہفتہ سے غزہ کے اور مغربی کنارے میں معصوم بچوں ، عورتوں کو سفاکانہ بم باری میں مار ڈالنے کے بعد شاید ابراہیمی معاہدے، کواہمیت اور افادیت ختم ہوتی دکھائی نہیںدے رہی ہے۔وہ ممالک جنہوں نے اس امید میں کہ اسرائیل شاید اس عظیم حوالے سے اپنی جارحیت کو ختم کرے گا۔ علاقہ میں امن قائم ہوجائے گا،فلسطینیوں کو آزادی مل جائے گا۔ بیت المقدس کے تقدس کو پامال کرنا بند کردے گا، ان کو مایوسی ہوئی ہوگی۔ ابراہیمی معاہدے کرنے والے ممالک کے حکمرانوں کو کہیں نہ کہیں یہ ڈرتوستارہاہوگاکہ اسرائیل سے سمجھوتے کے بعد ہمارے صلح پسند عوام ہم سے ہی بدگمان نہ ہوجائیں۔ اہل وادی سینا کو ضروری اس بات کا ملال ہوگا ،دنیا کی ہر عظیم سرزمیں کیوں مرکزعالمی رواداری اور روحانیت بن نہ سکی۔اس وقت بھی مغربی ایشیا ہمیشہ کی طرح دنیا کا حساس ترین ،نازک ترین خطہ بنا ہوا ہے، جہاں آگ اور لہو کی بارش ہورہی ہے ۔اس سرزمین میں تمام مذاہب کو یکساں سلوک کویقینی بنائے بغیر سب کو انسانی حقوق دیے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ضروری ہے کہ یہ عالمی طاقتیں ، مصنوعی بحرانوں کو اچھالنے کا وطیرہ ترک کرکے اصل مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ کریں توشاید دنیا زیادہ بہتر ہوگی۔oum