کسانوں کی تحریک کاخاتمہ

0

جس طرح اچانک وزیراعظم نریندرمودی نے تینوں زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کیا، اسی طرح کسانوں نے بھی اچانک تحریک ختم کرنے اور گھرواپسی کا اعلان کردیا۔دونوں اعلانات اس طرح ہوئے کہ لوگوں کو سوچنے اورسمجھنے کاموقع ہی نہیں ملا۔ تاہم کسانوں کے مسائل حل ہونے اوران کی تحریک ختم ہونے سے پورا ملک راحت محسوس کررہا ہے۔یقینایہ غورطلب امرہے کہ کسانوں اورسرکارکے درمیان 11دورکی بات چیت سے جوزرعی قوانین واپس نہیں ہورہے تھے اورکسان تحریک ختم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بات چیت کے بغیر دونوں پرامن طریقے سے کیسے ہوگئے؟ 2خطوط، ایک وہ جو کسانوں نے وزیراعظم کو لکھا تھا اوردوسرا جووزارت زراعت نے کسانوں کی نمائندہ تنظیم متحدہ کسان محاذ کو لکھا، نے وہ کردکھایاجوکوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔زرعی قوانین کی واپسی تواوربھی ڈرامائی اندازمیں ہوئی۔اچانک لاک ڈائون کے دوران آرڈیننس کی صورت میں زرعی اصلاحات کے نام پر قوانین لائے گئے جو ستمبر 2020 میں پارلیمنٹ سے پاس کراکر اورصدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کے دستخط سے نافذ بھی کیے گئے تھے، اس طرح اس معاملہ میں سب کچھ اچانک ہی ہوا۔ زرعی قوانین کے خلاف تحریک آرڈیننس جاری ہونے کے بعد ہی کسانوں نے اگست 2020میں پہلے پنجاب سے شروع کی پھر ہریانہ ،اترپردیش اورپورے ملک کے کسان حمایت میں آئے۔جب 25نومبر 2020 کو کسانوں نے دہلی کوچ کیا توتحریک سرکار کے کنٹرول سے باہر نظر آنے لگی پھروہ دہلی کی 3سرحدوں سنگھوبارڈر، غازی پور بارڈر اورٹیکری بارڈر پر اس طرح ڈٹ گئے کہ حالات بدلے،لیکن کسان اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ آخرکار زرعی قوانین پر مصر سرکار کو اپنے قدم پیچھے کرنے پڑے اور کسانوں نے 378دنوں بعد تحریک ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
دیکھا جائے تو 26جنوری کے ٹریکٹر مارچ کو چھوڑکر مجموعی طور پر کسانوں کی تحریک پرامن رہی اور انہوں نے بہت صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔دوسری طرف سرکار کا رویہ بھی ابتدامیں کچھ سخت اقدامات کوچھوڑکر مجموعی طور لچک دار رہا۔یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگاکہ16دسمبرکو سپریم کورٹ میں جانے سے وہاں سے تومسئلہ حل نہیں ہوا لیکن حل کی ایک راہ ضرورنکلی، سپریم کورٹ نے ہی پہلی بار زرعی قوانین کے نفاذپر 6ماہ کے لیے روک لگائی تھی جسے بعد میں سرکارنے ڈیڑھ ماہ تک کرنے کی پیش کش کی۔اس سے پہلی بار یہ حقیقت سامنے آئی کہ مسئلہ قوانین کا نفاذ ہے۔ اس پر روک لگائی جاسکتی ہے تو قوانین واپس کیوں نہیں لیے جاسکتے۔ اوروہی ہوا پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس سے پہلے 19نومبرکوگروپورنیما کے موقع پر وزیراعظم نے اچانک قوانین کی واپسی کااعلان کرکے پورے ملک کو حیرت زدہ کردیا۔اس کے بعد 26ستمبر کو مرکزی وزیرزراعت نریندرسنگھ تومر نے یہ اعلان کیا کہ پرالی جلانا کرائم کے زمرے میں نہیں رہے گااورکسانوں کی دوسری سب سے بڑی مانگ ایم ایس پی پر کمیٹی بنانے کی بات کہہ دی۔پھر سرمائی اجلاس کے پہلے دن 29نومبر کو بحث کے بغیر دونوں ایوانوں سے قوانین کی واپسی کا بل پاس کراکے سرکارنے تنازع کو ختم کردیا۔باقی مسائل ایم ایس پی، مقدمات کی واپسی اورمعاوضہ کے حل کے لیے آج 9دسمبر کو5نکاتی تحریری یقین دہانی اور تجاویز کسانوں کو بھیج دیں۔جواب میں کسانوں نے سرکارکو 15جنوری تک وقت دے کرتحریک ختم کرنے کااعلان کردیا۔
نئی پیش رفت کے بعد 11دسمبر سے کسان اپنے گھروں کو واپس ہونے لگیں گے۔ اب 15جنوری کو کسانوں کی جائزہ میٹنگ کے بعد پتہ چلے گا کہ ان کے دیگر مطالبات کہاں تک پورے ہوئے۔ فی الحال دہلی کی سرحدوں پر تحریک کی وجہ سے جو سڑکیں بند تھیں، وہ آمدورفت کے لیے کھل جائیں گی۔ 14ماہ کی تحریک کے دوران کسانوں اورملک نے بہت کچھ کھویا، بعض رپورٹوں کے مطابق 700سے زیادہ کسانوں کی موت ہوئی۔ کاروبار اورسرکار کوٹیکس کی صورت میں الگ نقصان پہنچا۔ کسانوں اورسرکار کی ہارجیت کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ کسانوں کے اصل مسائل سامنے آئے اورانہیں حل کرنے کی راہیں کھلیں جوپورے معاملہ کا خوش آئند پہلوہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS