ایمرجنسی :جس نے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد کردیا: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

25جون 1975 کو وزیراعظم اندرا گاندھی نے سختی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایمرجنسی کا اعلان کیا۔ ہندوستانی سیاست میں اس روز کو جمہوریت کے قتل اور ’ یوم سیاہ‘ کے طور پر یاد کیا جاتاہے۔ جیسے ہی ’خاتون آہن‘کہی جانے والی اندرا گاندھی نے جمہوری اقدار کو نظرانداز کرتے ہوئے ایمرجنسی کا اعلان کیا،ویسے ہی حزب اختلاف کے تمام چھوٹے بڑے رہنماؤں اوراہم کارکنوں کوگرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ ایمرجنسی کے دوران کی تمام برائیوں اور کوتاہیوں کے باوجود اس دن کو اس لیے بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رام لیلا میدان میں منعقد جلسہ عام نے اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پرلاکر متحد کردیا اور مرکزی حکومت کو اپنی طاقت کا احساس دلانے کی نئی راہ ہموار کی۔اندرا گاندھی کے سیاسی حریف راج نارائن نے رائے بریلی میں 1971 کے الیکشن کے نتائج کے حوالے سے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی اور مسز گاندھی پر ووٹروں کو لبھانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے پیسے کی طاقت کے استعمال، غیر قانونی ہتھکنڈے اپنانے اور الیکشن جیتنے کے لیے سرکاری مشینری کے غلط استعمال جیسے سنگین الزامات لگائے۔ جسٹس جگموہن لال سنہا نے اندراگاندھی کو الیکشن میں دھاندلی اور جیتنے کے لیے غیر قانونی طریقے اختیار کرنے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔ 12 جون 1975 کو سنائے گئے تاریخی فیصلے میں جسٹس سنہا نے نہ صرف اندرا گاندھی کے انتخاب کو منسوخ کر دیا بلکہ ان پرایوان زیریں یا ایوان بالا کے انتخابات میں حصہ لینے اور اگلے 6برسوں تک پارلیمنٹ کا رکن بننے پر بھی پابندی عائد کر دی۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد چونکہ اندراگاندھی پارلیمنٹ کی رکن نہیں رہیں، اس لیے لوک نائک جے پرکاش نارائن کی پہل پر 25 جون 1975 کو اپوزیشن جماعتوں نے دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک تاریخی جلسہ عام کا انعقاد کیا۔اس میں سنجیدگی سے غور و خوض اور مستقبل کی حکمت عملی طے کرنے کے بعد وزیراعظم اندرا گاندھی کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اپوزیشن کے اس تیز حملے سے بے چین اندرا گاندھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوگئیں۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے کچھ شرائط کے ساتھ راحت دینے کے باوجود اندرا گاندھی نے رات میں ہی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ 26 جون 1975 کو صدرجمہوریہ فخرالدین علی احمد نے ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے آرٹیکل 352 کے تحت وزیراعظم کے ایمرجنسی کے حکم نامے کو منظوری دے دی۔ایمرجنسی نافذ کرنے کے فوراً بعد اپوزیشن جماعتوں کے لوک نائک جے پرکاش نارائن، اٹل بہاری واجپئی، مرارجی دیسائی، لال کرشن اڈوانی، راج نارائن، جیوترام کرپلانی اور چودھری چرن سنگھ جیسے تمام بڑے رہنماؤں کو ان کی رہائش گاہوں اور پارٹی دفاتر سے گرفتار کر لیا گیا۔ یہی نہیں، حکمراں جماعت کے چندر شیکھر، موہن دھاریا اور کرشن کانت سمیت کئی لوگ جنہوں نے قومی مفاد میں مخالف موقف اپنایا، کو بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ایمرجنسی کے دوران قید1,10,806 سیاست دانوں کو ذہنی اور جسمانی اذیت سے گزرنا پڑا۔ ایمرجنسی میں نہ صرف راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پر پابندی عائد کی گئی، بلکہ سیاسی جماعتوں کی تمام سرگرمیوں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ میڈیا بھی عوامی حقوق کی پامالی کے جبر سے نہیں بچ سکا۔

جمہوریت کے چوتھے ستون’ پریس ‘پر سنسرشپ لگا دی گئی۔ چار بڑی انگریزی اور ہندی خبروں اور خبر رساں ایجنسیوں،’ یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا‘، ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘، ’ہندوستان سماچار‘ اور’ سماچار بھارتی‘ کوختم کرکے اس کی جگہ ’ سماچار‘ نام سے ایک سرکاری خبر رساں ایجنسی قائم کی گئی۔ ریڈیو اور دوردرشن پر پہلے سے موجود سرکاری کنٹرول کے بعد اخبارات بھی آزاد نہیں رہ سکے۔ خبروں پر ’ سماچار‘ کا پہرہ تھاتو اخبارات میں خبریں بھی سرکار کی مرضی اورخواہش کے مطابق شائع ہوئیں۔ دوسری جانب دم دار نوجوان لیڈر سنجے گاندھی، ہریانہ کے وزیراعلیٰ بنسی لال، اطلاعات و نشریات کے وزیر مملکت ودیا چرن شکل اور وزیر داخلہ اوم مہتا پر مشتمل جماعت نے سیاسی عمل اور مشینری کودرکنار کرکے خوب منمانی کی۔ عام آدمی کی آواز پوری طرح دب کر رہ گئی۔ آبادی پر قابو پانے کے لیے نس بندی کے نام پر مرد و خواتین کو ہراساں کیا گیا۔ اس سے عوام میں اندر خانہ حکومت کے خلاف ناراضگی بڑھ گئی۔ 25 جون 1975 کو رام لیلا میدان کے جلسے میں لوک نائک جے پرکاش نارائن کی اشتعال انگیز تقریر کے دوران ایک آواز میں بولنے والے سرکردہ رہنما اپنی گرفتاری کے بعد اندراگاندھی کے خلاف احتجاج میں ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے محسوس کیا کہ مرکزی حکومت کی جابرانہ پالیسی کو روکنے کے لیے غیر کانگریسی جماعتوں کا متحد ہونا بہت ضروری ہے۔ تقریباً 19 مہینوں کے بعد اندرا گاندھی نے 23 جنوری 1977 کو ایمرجنسی کا خاتمہ کیا اور 23 مارچ 1977 کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔ 25 جون 1975 کو رام لیلا میدان میں ہونے والے جلسے کی کامیابی سے متاثر ہو کر، اپوزیشن جماعتوں نے تمام اختلافات بھلانے کے عزم کے ساتھ اتحاد کو قبول کیا، تاکہ اندرا گاندھی کے خراب دورحکومت سے آزادی حاصل کی جاسکے۔ جے پی کی کوششوں سے پانچوں انگلیاں مل کر ایک مٹھی بنی اور جنتا پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت وجود میں آئی۔ ایمرجنسی کے دوران کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عام ووٹروں نے جنتا پارٹی کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے زبردست کامیابی دلائی۔

542 کے ایوان میں جنتا پارٹی کو 295 نشستیں ملیں،جب کہ 350 کی سابقہ کارکردگی والی کانگریس 153سیٹیں ہی حاصل کرسکی۔ وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کے بیٹے سنجے گاندھی کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔مرارجی دیسائی کی قیادت میں ملک میں پہلی بار غیر کانگریسی حکومت اقتدارمیں آئی۔ وہ نہ صرف ایمرجنسی کے ذمہ داروں کو سزا دینے میں ناکام رہی، بلکہ عام لوگوں کی کسوٹی پر بھی کھری نہیں اتری۔ جنتا پارٹی میں شامل سیاسی جماعتوں کے لیڈر اقتدار کی کشمکش میں الجھے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اندرا گاندھی نے چکمنگلورکے ضمنی انتخاب میں شاندار واپسی کی اور پارلیمنٹ میں داخل ہوئیں۔ جنتا پارٹی نے اندرا گاندھی کو پارلیمنٹ میں جانے کی اجازت نہیں دی اور انہیں ایک ہفتہ کے لیے تہاڑ جیل میں ڈال دیا۔

جنتا پارٹی حکومت کے اس قدم سے اندرا گاندھی کی مقبولیت بحال ہوئی اور جنتا پارٹی کی حکومت رفتہ رفتہ عوام کی نظروں میں اپنی مقبولیت کھونے لگی۔ اندرخانہ سیاسی اختلافات کی وجہ سے جنتا پارٹی کی حکومت ٹوٹنی شروع ہوگئی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جون 1979 میں وزیراعظم مرار جی دیسائی نے استعفیٰ دے دیا اور جنتا پارٹی بھان متی کے کنبے کی طرح بکھر گئی۔ کانگریس کی باہری حمایت سے کسان لیڈر چودھری چرن سنگھ وزیراعظم بنے، لیکن انہیں وزیراعظم کے طور پر پارلیمنٹ پہنچنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی۔ کانگریس نے 1979 کے سرد موسم میں حمایت واپس لے کر ہندوستانی سیاست میں گرماہٹ پیدا کردی۔ اس کے بعد صدرجمہوریہ نیلم سنجیو ریڈی نے پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا۔ جنوری 1980 میں ہوئے عام انتخابات میں اپنی بہترین کارکردگی کی بنیاد پر کانگریس دوبارہ مرکز میں اقتدار میں آگئی۔اتحادی جماعتوں کی خود غرضی کی وجہ سے جنتا پارٹی اپنے 5برس پورے نہیں کر پائی اور ڈھائی سال میںہی ٹوٹ کر بکھر گئی۔جنتا پارٹی کے اتحادیوں کے الگ ہونے کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ 25 جون 1975کا دن ہی تھا، جس نے حزب اختلاف کو متحد ہو کر مرکز میں حکومت کرنے اور حکمراں کانگریس کو اقتدار سے باہر کرنے کا موقع فراہم کیا۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS