پنکج چترویدی
ابھی ایک ماہ قبل کوئلے کی کمی کی وجہ سے ملک کی دمکتی روشنی اور پائیدار ترقی پر اندھیرا چھاتا نظر آ رہا تھا۔ ہندوستان کی معیشت میں آئے زبردست اُچھال نے توانائی کی کھپت میں تیزی سے اضافہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک توانائی کے شدید بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کسی بھی ملک کی شرح نمو راست طور پر وہاں توانائی کی سپلائی پر انحصار کرتی ہے۔ معاشی ترقی کے لیے آسان اور قابل اعتماد توانائی کی سپلائی بے حد ضروری ہوتی ہے جبکہ نئی سپلائی کا خرچ تو بے حد ڈانواںڈول ہے۔ دوسری جانب ہمارے سامنے 2070 تک صفر کاربن کی چنوتی بھی ہے۔
ہندوستان میں یوں تو دنیا کے کوئلہ کا چوتھا سب سے بڑا ذخیرہ ہے لیکن کھپت کی وجہ سے ہندوستان کوئلہ درآمد کرنے کے معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ہماری کل بجلی پیداوار-3,86888میگاواٹ میں تھرمل پاور سینٹر کی حصہ داری 60.9 فیصد ہے۔ اس میں بھی کوئلے پر مبنی52.6 فیصد، لگنائٹ، گیس اور تیل پر مبنی بجلی گھروں کی صلاحیت بالترتیب 1.7، 6.5 اور 0.1فیصد ہے۔ ہم آج بھی ہائیڈرو یعنی پانی پر مبنی منصوبے سے محض12.1 فیصد، جوہری توانائی سے 1.8 اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے 25.2 فیصد بجلی حاصل کر رہے ہیں۔
امسال ستمبر 2021 تک ملک کی کوئلے پر مبنی بجلی پیداوار میں تقریباً 24 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ پاور پلانٹس میں کوئلے کی روزانہ کی اوسط ضرورت تقریباً 18.5 لاکھ ٹن ہے جبکہ ہر دن محض17.5 لاکھ ٹن کوئلہ ہی وہاں پہنچا۔ زیادہ مانسون کی وجہ سے کوئلے کی سپلائی متاثر تھی۔ پاور پلانٹس میں دستیاب کوئلہ ایک رولنگ اسٹاک ہے جس کی بھرپائی کوئلہ کمپنیوں سے روزمرہ کی بنیاد پر سپلائی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ کووِڈ وبا کی دوسری لہر کے بعد ہندوستان کی معیشت میں تیزی آئی ہے اور گزشتہ دو ماہ میں ہی بجلی کی کھپت میں 2019 کے مقابلے 17 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ اس دوران دنیا میں کوئلے کی قیمت میں 40 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جبکہ ہندوستان کی کوئلہ درآمدات دو سال میں سب سے نچلی سطح پر ہے۔
یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا کام لامحدود دور تک نہیں کرسکتے، کیونکہ قدرت کی گود میں اس کا ذخیرہ محدود ہے۔ ویسے بھی دنیا پر منڈلا رہی ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کی وجہ سے ہندوستان کے سامنے چنوتی یہ ہے کہ کس طرح کاربن کے اخراج کو کم کیا جائے جبکہ کوئلے کے جلانے سے بجلی بنانے کے عمل میں بے انتہا کاربن نکلتا ہے۔ کوئلے سے چلنے والے پاوراسٹیشنوں میں مقامی سطح پر فضائی آلودگی کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے بالخصوص نائٹروجن آکسائیڈ اور سلفر آکسائیڈ کے سبب۔ اس کی وجہ سے تیزابی بارش جیسے برے اثرات کا بھی اندیشہ ہے۔ ان پاور اسٹیشنوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گیسوں سے پیدا ہونے والی آلودگی ’گرین ہاؤس گیسوں‘ کی دوست ہے اور زمین کے گرم ہونے اور موسم میں غیرمتوقع تبدیلی کی وجہ ہے۔ نیوکلیئر پاور اسٹیشنوں کی وجہ سے ماحولیاتی بحران الگ طرح کا ہے۔ ایک تو اس پر کئی بین الاقوامی پابندیاں عائد ہیں اور پھر چیرینابیل اور فوکوشیما کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ نیوکلیئر ایکس پلوزن سے بجلی بنانا کسی بھی وقت ایٹم بم کے دھماکے جیسے برے اثرات کو دعوت دینا ہے۔ جوہری مادوں کی دیکھ بھال اور ریڈیو ایکٹیو کچرے کا نمٹارہ بے حد حساس اور خطرناک کام ہے۔ جیسے کہ کچھ ریڈیوایکٹیو مادوں کے ایکس پلوزن کا عمل کئی کئی ہزار سال تک چلتا رہتا ہے اور انہیں بے حد محفوظ مقامات پر رکھنا ہوتا ہے، جہاں پر بڑی تبدیلیوں کا کوئی امکان نہ ہو۔
ہوا ایک قابل رسائی اور بے خطر توانائی کا ذریعہ ہے لیکن اسے مہنگا، غیرمستحکم اور غیربھروسے مند ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں محض 39.870 میگاواٹ بجلی ہوا سے بن رہی ہے۔ ہمارے ملک میں ابھی تک لگے وِنڈپاور آلات کی ناکامی کی اہم وجہ ہندوستان کے ماحول کے مطابق اس کے اسٹرکچر کا نہ ہونا ہے۔ ہمارے یہاں بارش، درجۂ حرارت، نمی اور کھارہ پن مغربی ممالک سے مختلف ہے جبکہ ہمارے یہاں لگائے گئے سبھی پلانٹ غیر ملکی اور خاص طور پر ’ڈچ‘ ہیں۔ تبھی ایک تو موسم کی وجہ سے پلانٹ کی پنکھڑیوں پر کیمیائی پرت جمتی جاتی ہے اور اس کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں جن مقامات پر بہتر وِنڈپاور کا امکان ہے، وہاں پر پلانٹ کے بھاری بھرکم کھمبوں اور ٹربائن کو لے جانا بھی بے حد خرچیلا ہے۔ انہی وجوہات سے ذریعہ مفت ہوتے ہوئے بھی اس سے ملنے والی بجلی بے حد مہنگی پڑتی ہے۔ پانی سے بجلی بنانے میں پہاڑی ریاستوں کے جھرنوں پر ٹربائن لگانے کے بعد خوفناک آفات کا اشارہ ہے کہ ملک کو اپنی گود میں پرورش پا رہے پہاڑوں کے ماحول سے زیادہ چھیڑچھاڑ بحران میں ڈال سکتا ہے۔
سورج سے بجلی حاصل کرنا ہندوستان کے لیے بہت آسان ہے۔ ہمارے ملک میں سال میں 8 سے 10 ماہ دھوپ رہتی ہے اور چار ماہ تیزدھوپ رہتی ہے۔ ویسے بھی جہاں امریکہ اور برطانیہ میں فی میگاواٹ شمسی توانائی پیدا کرنے پر خرچ بالترتیب 238 اور 251 ڈالر ہے وہیں ہندوستان میں یہ محض 66 ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ یہاں تک کہ چین میں بھی یہ خرچ ہندوستان سے 2 ڈالر زیادہ ہے۔ ہمارے ملک میں چھت پر لگنے والے سولرپینل بہت مقبول ہو رہے ہیں۔ کم لاگت کی وجہ سے گھروں اور تجارتی اور صنعتی عمارتوں میں استعمال کیے جانے والے چھت پر لگے سولر پینل جیسی روف ٹاپ سولر فوٹوووالٹک (آر ٹی ایس پی وی) تکنیک موجودہ وقت میں سب سے تیزی سے لگائی جانے والی توانائی پیدا کرنے والی تکنیک ہے۔ اندازہ ہے کہ آر ٹی ایس پی وی سے 2050 تک عالمی بجلی کی ڈیمانڈ کا 49 فیصد تک پوری ہوگی۔ 2006 اور 2018 کے دوران آر ٹی ایس پی وی کی تنصیب کی صلاحیت 2500 میگاواٹ سے بڑھ کر 2,13,000 میگاواٹ پہنچ گئی ہے۔ اگر صرف سبھی گروپ ہاؤسنگ سوسائٹی، سرکاری عمارت، پنچایتی سطح پر پبلک لائٹنگ سسٹم کو مقامی سولر سسٹم میں بدل دیا جائے تو ہم ہر سال ہزاروں میگاواٹ بجلی کا کوئلہ بچا سکتے ہیں۔
شمسی توانائی ایک اچھا متبادل ہے لیکن اس کے لیے بہت زیادہ اراضی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بات ہم نظرانداز کر رہے ہیں کہ سولرپلانٹ میں استعمال پلیٹس کے خراب ہونے پر اس کے ڈسپوزل کا کوئی طریقہ ابھی تلاش نہیں کیا گیا ہے اور اگر انہیں ویسے ہی چھوڑ دیا گیا تو زمین کی گہرائی تک اس کی آلودگی کا اثر ہوگا۔ یہاں ایک بات پر غور کرنا ہوگا کہ گزشتہ کچھ برسوں میں ہمارے یہاں قابل تجدید توانائی سے حاصل پاور اسٹوریج اور آلات میں بیٹری کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جبکہ یہ غور نہیں کیا جا رہا ہے کہ خراب بیٹری کا سیسہ اور تیزاب ماحول کی صحت خراب کردیتا ہے۔
بجلی کے بغیر ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا جبکہ بجلی بنانے کے ہر طریقے میں ماحولیات کے نقصان کا اندیشہ ہے۔ اگر توانائی کے کفایتی استعمال کو یقینی بنائے بغیر توانائی کی پیداوار کی مقدار میں اضافہ کیا جاتا رہا تو اس کام میں خرچ کیا جا رہا پیسہ ضائع ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کا منفی اثر معیشت پر پڑے گا۔ ترقی کے سامنے اس چنوتی سے نمٹنے کا واحد راستہ ہے-بجلی کا زیادہ کفایت سے استعمال کرنا۔ ’توانائی کا تحفظ اس کی پیداوار کے برابر ہے۔‘ پوری دنیا میں لوگوں کی توجہ بجلی کی بچت کی جانب مبذول کرانے کے لیے اس نعرے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ بجلی کی بچت کرنا، نئے پاور اسٹیشن لگانے کی بہ نسبت بے حد سستا راستہ ہے۔
[email protected]