ملک میں سب سے پیچیدہ انتخابی سیاست اگر کہیں ہے، تو مہاراشٹرہے، جہاں سیاسی پارٹیوں کو پہلے گروپ میں اپنی برتری ثابت کرنی ہے ، پھروہ امیدوار کھڑے کرکے ووٹ مانگنے کیلئے عوام کے پاس جائیں گی ۔جب گروپ یا اتحاد میں ہی ٹکٹوں کی تقسیم کامسئلہ اتنا مشکل ہوگیا ہے ، تو اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ رائے دہندگان سے ووٹ مانگنا اورحاصل کرناکتنامشکل ہوگا ۔ چاہے حکمراں مہایوتی ہو یا اپوزیشن مہاوکاس اگھاڑی دونوں میں ٹکٹوں کی تقسیم ایک ایسا سنگین مسئلہ بن گیا ہے ۔ جتنی میٹنگیں ہورہی ہیں ، اتنا ہی مسئلہ پیچیدہ ہورہاہے ۔ مہایوتی کی میٹنگیں تو ممبئی سے دہلی تک ہورہی ہیں ، لیکن بات نہیں بن رہی ہے ۔یہی حال مہاوکاس اگھاڑی کا ہے، کتنی میٹنگیں ہوگئیں ، لیکن ممبئی کی کچھ سیٹیں پھنسی ہوئی ہیں ۔ غور طلب امرہے کہ دونوں اتحاد میں بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ -2 2این سی پی اور شیوسیناہیں ۔حکمراں مہایوتی میں جہاں بی جے پی کے ساتھ شیوسیناشندے گروپ اوراین سی پی اجیت پوار گروپ ہیں ، تو مہاوکاس اگھاڑی میں کانگریس کے ساتھ شیوسیناادھوگروپ اور این سی پی شرد پوار گروپ ہیں ۔ یہ تمام 6پارٹیاں زمینی سطح پر اتنی مضبوط ہیں کہ کسی سے کم سیٹوں پر الیکشن لڑنے کو تیار نہیں ہے ۔یہ معمولی بات نہیں ہے کہ ریاست میں پہلی بار کانگریس اورادھو ٹھاکرے کی پارٹی 100سے کم سیٹوں پر الیکشن لڑرہی ہیں ، پھر بھی مہاوکاس اگھاڑی میں کچھ سیٹوں پر رسہ کشی جاری ہے ۔مہاراشٹر کی 288 سیٹوں پر ایک ہی مرحلہ میں 20نومبرکو ووٹنگ ہوگی ۔جس کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ 29اکتوبر ہے اورحال یہ ہے کہ ابھی تک مہایوتی اور مہاوکاس اگھاڑی نے تمام سیٹوں پر امیدواروں کا اعلان نہیں کیا ہے ۔ کچھ سیٹوں پر دونوں اتحاد میں اتفاق رائے نہیں ہورہاہے ۔وہ سیٹیں ہر پارٹی کیلئے وقار کا مسئلہ بنی ہوئی ہیں ۔ادھر سماجوادی پارٹی کی طرف سے 20سیٹوں پر امیدواروں کے اعلان سے مہاوکاس اگھاڑی کو دھچکالگاہے ، کیونکہ اتحاد اسے دوچار سیٹوں سے زیادہ دینانہیں چاہتاتھا۔اس کے امیدوار کھڑے ہوں گے ، تو ووٹوں کی تقسیم کاخطرہ ہے ۔
مہاراشٹر میں سیٹوں کی تقسیم میں پارٹیاں اس قدر الجھ گئی ہیں کہ ان کو انتخابی مہم چلانے کا موقع ہی نہیں مل رہاہے ۔جن امیدواروں کا اعلان ہوچکا ہے ، وہ اپنے طورپر ضرور انتخابی مہم چلا رہے ہیں ، لیکن پارٹی کے سینئر لیڈران ابھی بھی انتخابی مہم سے دوری بنائے ہوئے ہیں ، حالانکہ ہر پارٹی نے اپنے اسٹارکمپینر کے ناموں کا اعلان کردیا ہے ۔ریاست کی بڑی 6 پارٹیاںاتحاد کے ساتھ لڑنا تو چاہتی ہیں ، اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہے ۔ ریاست کا انتخابی منظرنامہ کچھ ایساہے کہ کوئی بھی پارٹی اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑکر اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں کرسکتی ۔اسے الیکشن میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے اورالیکشن کے بعد بھی حکومت سازی کیلئے اتحاد کا سہارا لینا پڑے گا ۔اتحاد ایک سیاسی ضرورت ہی نہیں ، بلکہ پارٹیوں کی سیاسی مجبوری بھی ہے ۔کئی دہائیوں سے ریاست میں مخلوط حکومت کا دور چل رہاہے ۔پہلے ایک طرف جہاں بی جے پی اور شیوسیناکا اتحاد ہوتاتھا ، تو دوسری طرف کانگریس اوراین سی پی کا۔اب شیوسینا اوراین سی پی تقسیم ہوکر ایک ایک گروپ بی جے پی اورکانگریس کے ساتھ ہوگیا ہے ۔اس طرح پہلے ایک اتحاد میںصرف 2-2پارٹیاں ہوتی تھیں ، اب 3-3 پارٹیاں ہوگئی ہیں ۔مقابلہ اب بھی دوطرفہ ہی ہوگا ، بس اتحادی پارٹیاں الگ الگ ہوں گی ۔ کہیں کہیں علاقائی پارٹیوں کے یا آزاد مضبوط امیدوار مقابلہ کو سہ طرفہ بنائیں گے، جس سے مقابلہ دلچسپ ہوجائے گا ۔ اس سے کسی نہ کسی اتحاد کو نقصان پہنچے گایا فائدہ اوروہی فائدہ یا نقصان گیم چینجر بنے گا ۔کسی اتحاد کو اقتدارکی دہلیز پر پہنچادے گا اورکسی کودورکردے گا۔جہاں مقابلہ کم فرق سے ہوگا ، وہاں نتائج میں چھوٹی چھوٹی پارٹیوں یا آزاد امیدواروں کا اہم رول ہوگا ۔ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں بھی کچھ ایسا ہی کھیل ہواتھا۔
بہرحال مہاراشٹر اسمبلی انتخابات سے قبل اتحاد میں برتری کیلئے گروپ میں سیٹوں کیلئے ہونے والی رسہ کشی سے پتہ چلتاہے کہ جب اتحاد میں سیٹوں کیلئے لڑائی اتنی سخت ہے ، تو رائے دہندگان کے سامنے لڑائی کتنی مشکل ہوگی ۔ لوگ بھی خاموشی سے سیاسی پارٹیوں کی رسہ کشی کو دیکھ رہے ہیں ۔وقت آنے پر اپنافیصلہ سنائیں گے ۔رائے دہندگان کی یہ خاموشی سیاسی پارٹیوں کیلئے مشکل ثابت ہوگی ۔
[email protected]