’فائنل‘ سے پہلے کے انتخابات

0

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ عام انتخابات سے پہلے کسی اسمبلی انتخاب میں بڑی اپوزیشن پارٹی کی جیت کا اثراپوزیشن اتحاد پر پڑتا ہے۔ اسی لیے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی جیت کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس کی پوزیشن وہ نہیں ہے جو کرناٹک کے انتخابی نتائج سے پہلے تھی۔وہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ اس کے باوجود بہار میں اپوزیشن پارٹیوں کے اجلاس کے بعد ہی یہ اندازہ لگانا آسان ہوگا کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات کا کس حد تک اثر اپوزیشن اتحاد پر پڑا ہے، کیونکہ کرناٹک میں کانگریس نے شاندار کامیابی ضرور درج کی ہے، اس کے ووٹ فیصد میں 4.74 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، اس کے کھاتے میں 55 سیٹوںکا اضافہ ہوا ہے اور بی جے پی کو 38 سیٹوں کا نقصان ہوا ہے لیکن اس کا ووٹ فیصد زیادہ کم نہیں ہوا ہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا صرف 0.35 فیصد ووٹ کم ہونا یہ اشارہ ہے کہ اس کے ووٹرس اپنی جگہ سے ہٹے نہیں ہیں، وزیراعظم نریندر مودی اور امت شاہ کی انتخابی ریلیوں کا اسے فائدہ ملا ہے۔ اسی لیے اب لوک سبھا انتخابات سے پہلے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، میزورم، راجستھان، تلنگانہ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر نظریں مرکوز ہیں اور ان ریاستوں کے انتخابات کو اسی لیے ’سیمی فائنل‘ کہا جا رہا ہے،کیونکہ ان کے نتائج سے لوگوں کے رجحان کا اندازہ لگانا آسان ہوگا۔ویسے پوری طرح یہ مان لینا بھی ٹھیک نہیں ہے کہ یہ انتخابات ’سیمی فائنل‘ ہی ہوں گے۔ پچھلی بار دہلی کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر اسے عام انتخابات میں شاندار کامیابی ملی تھی، البتہ مدھیہ پردیش میں اگر کانگریس جیتنے میں کایاب رہی جبکہ چھتیس گڑھ اور راجستھان میں اپنا اقتدار بچا سکی تو ان کامیابیوں کا اثر اپوزیشن اتحاد پر پڑنے کا امکان رہے گا۔ سیٹوں کے شیئر پر ان کا اثر پڑے گا۔ ان اپوزیشن پارٹیوں کو بھی کانگریس کے ساتھ آنے پر سوچنا پڑے گا جو آج اس کے ساتھ نہیں ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہوگا کہ حالات بالکل بدل جائیں گے۔ اتحاد نفع نقصان کا خیال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے، آنکھ بند کر کے نہیں۔ بحث کی خاطراگر یہ بات مان لی جائے کہ مدھیہ پردیش کے علاوہ چھتیس گڑھ اور راجستھان میں بھی کانگریس کامیابی حاصل کرے گی،تب بھی یہ ماننا مشکل ہے کہ اس کی سربراہی والے اتحاد میں تمام اپوزیشن پارٹیاں شامل ہو جائیں گی۔ کے چندر شیکھر راؤ کی پارٹی، بھارت راشٹر سمیتی اگر کانگریس کے ساتھ اتحاد کر لیتی ہے توسوال یہ ہے، پھر وہ تلنگانہ میں کسے اپوزیشن مانے گی؟ پچھلے اسمبلی انتخابات میں اس کی سب سے زبردست ٹکر کانگریس سے ہی ہوئی تھی۔ اسے 46.9 فیصد ووٹ ملا تھا تو کانگریس کو 28.4 فیصد ووٹ ملا تھا۔ تیسرے نمبر پر بی جے پی رہی تھی۔ اسے 7.1 فیصد ووٹ ملا تھا۔ان تینوں پارٹیوں کے علاوہ کوئی بھی پارٹی 5 فیصد بھی ووٹ حاصل نہیں کر سکی تھی۔ ہاں! یہ بات طے سی ہے کہ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان میں جو پارٹی جیتے گی، اس کے کارکنان زیادہ جوش کے ساتھ عام انتخاب میں سرگرم رہیں گے اور اس کا فائدہ پارٹی کو انتخابی تشہیر میں ملے گا اور انتخابی نتائج پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS