ملک کی سب سے اہم و حساس ریاست کشمیر ان دنوں پھر سرخیوں میں ہے۔ یہ سرخیاں حسب معمول وہاں امن اور دہشت گردی کے تعلق سے ہیں۔ جموں وکشمیر سے آئین کی دفعہ 370-A کے خاتمہ اور پوری ریاست کو تین ضمنی ریاستوںمیںتقسیم کرنے کے بعد وہاں کوئی منتخبہ جمہوری حکومت نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے عوام اور سیاسی رہنماؤں میں خاصا اضطراب نظر آتا ہے۔ سیاستداں اورعوام چاہتے ہیںکہ جلداز جلد وہاں عام اسمبلی انتخابات ہوں اور جمہوری منتخبہ حکومت قائم ہوتاکہ ریاستی حکومت اپنے آئینی اختیارات کے مطابق عوامی کاموں کو انجام دے سکے۔ اس کے لیے کئی مرحلوںمیں حالات کا جائزہ لینے کے بعد مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے عام انتخابات کرائے جانے کی بات شروع ہوئی ویسے ہی وہاں اچانک دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہوگیا۔ حالات یہ ہیں کہ مرکز میں مودی حکومت کی تیسری پاری شروع ہونے کے دن سے دہشت گردانہ حملوں کا نیا دور بھی شروع ہوگیا حالانکہ ملک میں لوک سبھا عام انتخابات کے دوران بھی وہاں تشدد اور حملہ کی کئی وارداتیں ہوئیں اور ان میں کئی افسران، پولیس اہلکاروںاور عوام کو نشانہ بنایاگیا۔
لوک سبھا عام انتخابات کے دوران ہوئی وارداتوں کو لوک سبھا الیکشن کو متاثر کرنے کی کارروائی سے تعبیر کیاگیا۔ اب جیسے ہی مرکز میں نئی حکومت تشکیل ہوئی،اس کے بعد کشمیر میں بھی اسمبلی انتخابات کرائے جانے کی پیش رفت ہونے لگی تو پھر وہاں بدامنی پھیلنے لگی۔ حالانکہ اسمبلی انتخابات کرائے جانے کا مقصد بھی یہ ہی ہے کہ وہاں کے عوام اپنے نمائندے منتخب کریں اور وہ منتخبہ عوامی نمائندے آئینی و جمہوری حکومت سازی کریں۔ اس طرح وہاں مرکز کی نگرانی والے نظام کو ختم کرکے گورنر راج کے بجائے منتخبہ وزیراعلیٰ اپنی کابینہ تشکیل دے سکے۔ جویقینا کشمیری ہی ہوں گے۔ انہیںعوامی نمائندوں میں سے کوئی وزیراعلیٰ، کوئی وزیراور دیگر عہدوں پر فائز ہوںگے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ جیسے ہی عام انتخابات کی بات شروع ہوتی ہے، وہاں اچانک دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ گزشتہ چندہ ماہ کی ان کارروائیوں پر اگر نظر ڈالیںتو معلوم ہوتا ہے کہ اس سال دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سہ سطحی سیکورٹی کی بات کی گئی ہے۔ صرف جون، جولائی میں دہشت گردی کے 8 واقعات ہوچکے ہیں۔ کچھ دہشت گرداب بھی دردسر بنے ہوئے ہیں۔ جموں ڈویژن کی بات کریں تو یکم جنوری سے اب تک دہشت گردانہ حملوں میں ایک کیپٹن سمیت 12 سیکورٹی اہلکار قربان ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں 10 شہری بھی مارے گئے، جبکہ 55؍افرارزخمی ہوئے۔اس دوران 5؍ دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ اس سال دہشت گردی کے بڑے واقعات کی بات کریں تو 15 جولائی کو ڈوڈہ ضلع میں دہشت گردوں کے ساتھ تصادم میں ایک افسر سمیت 4 فوجی جوان قربان ہوئے۔ 8جولائی کوکٹھوعہ ضلع میںدہشت گردانہ حملے میں فوج کے 5 جوان قربان اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔ 7 جولائی کو راجوری ضلع میں ایک سیکورٹی چوکی پر دہشت گردانہ حملہ ہوا جس میں ایک فوجی اہلکارزخمی ہوا۔ 26 جون کو ڈوڈہ میں تصادم میں 3 غیر ملکی دہشت گرد مارے گئے۔ 12؍ جون کو ڈوڈہ ضلع میں دہشت گردانہ حملے میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا۔ 12/11 جون کو کٹھوعہ ضلع میں ایک انکاؤنٹر میں 2 غیر ملکی دہشت گرد مارے گئے۔ یہاں ایک سی آر پی ایف جوان قربان ہوا۔ اسی دن ڈوڈہ ضلع میں دہشت گردانہ حملے میں راشٹر یہ رائفل کے5 اہلکار اور ایک خصوصی پولیس افسر زخمی ہو ا۔ 9؍ جون کو ریاسی ضلع میں ایک بس پر دہشت گردانہ حملے میں 9 زائرین ہلاک اور 42 زخمی ہوئے۔ 4 مئی کوضلع پونچھ میں دہشت گردانہ حملے میں ہندوستانی فضائیہ کا ایک سپاہی قربان اور 5 زخمی ہوئے۔ 28 اپریل کو اودھم پور ضلع میں دہشت گردوں کے ساتھ تصادم میں ایک گاؤں کے دفاعی محافظ کی موت ہوئی۔ 22 ؍اپریل کوراجوری ضلع میں دہشت گردوں نے ایک سرکاری ملازم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جیسے ہی اس خطہ میں قیام امن اور آئین ہند کے مطابق جمہوری حکومت سازی کی بات زور پکڑتی ہے، خطہ میں بدامنی پھیلنے لگتی ہے۔ بڑاسوال یہ ہے کہ یہ بدامنی پھیلانے والے کون ہیں؟ دہشت گردانہ حملوں پرجوابی کارروائی اور پولیس و فوج کی کارروائی میں جو دہشت گرد ہلا ک ہوئے وہ غیر ملکی تھے تو سوال پھر وہیں اٹھتا ہے کہ یہ غیر ملکی آتے کہاں سے ہیںاور کدھر سے ؟ ہمارے فوجی شب و روز سرحد کی نگہبانی کررہے ہیں۔ سخت ترین موسم اور نامناسب حالات میں وہ نہ صرف سرحد کی بلکہ پورے ملک کی حفاظت کررہے ہیں، لیکن سرحد کے اندر بدامنی نہیں رک رہی ہے۔ تو کیا ان غیر ملکی دہشت گردوں کے سرحد کے اندر آنے میں کوئی سازش ہورہی ہے؟ یا کسی سازش کو دبانے کے لیے اس طرح کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دلایاجارہا ہے۔
[email protected]
کشمیر میں انتخابات اور دہشت گردی!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS