ڈاکٹر جاوید عالم خان
لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر تقریباً تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے اپنے انتخابی منشور جاری کر دیے ہیں۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں غریب، کسان، عورتیں، بزرگ، نوجوان اور مڈل کلاس کے طبقے کی ترقی کا وعدہ کیا گیا ہے اور ان وعدوں کو گارنٹی کا نام دیاگیاہے۔ اسی طرح سے کانگریس بشمول تمام پارٹیوں نے مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی غیر برابری جیسے مسائل کو زیادہ توجہ دی ہے اور یہ وعدہ کیا ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ ان مسائل کو حل کریں گی۔ گزشتہ سال مرکزی حکومت نے روزگار سے متعلق کچھ اہم اعدادوشمار جاری کیے تھے جو یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح میں کمی آئی ہے مگر روزگار کے معیار میں بتدریج گراوٹ آرہی ہے۔ اعدادوشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ 2017 سے لوگوں کی ماہانہ آمدنی میں بالکل اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ملک کے اندر روزگار سے متعلق اعداد و شمار پیریوڈک لیبر فار سروے کے ذریعہ اکٹھا کیے جاتے ہیں جوکہ مرکزی وزارت برائے اسٹیٹسٹکس اور پروگرام امپلمینٹیشن کے تحت کام کرتا ہے۔ عوامی سطح پر روزگار اور بیروزگاری سے متعلق اعدادوشمار پی ایل ایف ایس کی سالانہ رپورٹ میں2017-18، 2018-19 اور 2019-20کیلئے مہیا کرائے گئے ہیں، اس سے پہلے اس طرح کے اعدادوشمار نیشنل اسٹیٹسٹیکل آفس کے ذریعہ مہیا کرائے جاتے تھے جس کی میعاد تین سال کیلئے ہوتی تھی اور اس کے ذریعہ گزشتہ سروے2011-12میں کرایا گیا تھا۔
پی ایل ایف ایس نے اکتوبر2023میں جولائی 2022 سے جون2023 کے درمیان روزگار اور بیروزگاری سے متعلق اعدادوشمار جمع کیے ہیں، اس کے ذریعہ تین ماہ کی بنیاد پر شہری علاقوں میں لیبر مارکیٹ سے متعلق مختلف اشاریوں میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں، اس کے اعدادوشمار اکٹھے کیے جاتے ہیں، اس کے ساتھ دیہی اور شہری علاقوں میں لیبر فورس سے متعلق تمام اشاریوں کا سالانہ تخمینہ جمع کیا جاتا ہے۔ ان اعدادوشمار کو جمع کرنے کیلئے سروے قومی اور صوبائی سطح پر منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس سروے کی میعاد موجودہ سال کی یکم جولائی سے شروع ہوکر اگلے سال کی 30جون کے درمیان تک ہوتی ہے۔ پی ایل ایف ایس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق تین طرح کے اعدادوشمار اکٹھے کیے جاتے ہیں، اس میں لیبر فورس کی شمولیت کی شرح، کام کرنے والی آبادی کی شرح اور بیروزگاری کی شرح شامل ہے، یہ اعدادوشمار عام طور پر 15سال اور اس سے اوپر کے لوگوں کے روزگار کی صورتحال پر اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ اگر کام کرنے والی آبادی کی شرح کا تجزیہ کیا جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ اس کی شرح2017-18میں46.8تھی جوکہ بڑھ کر 2020-21میں 52.6فیصد ہوگئی ہے۔
جہاں تک بیروزگاری کی شرح کا معاملہ ہے وہ اس وقت ملک کے تمام حلقوں میں موضوع بحث ہے۔ اس کے تحت گزشتہ سال جن لوگوں نے کام مانگا تھا، وہ کام حاصل کرنے میں ناکام رہے، ان کے تنا سب کو بے روز گاری کی شرح کہا جا تا ہے۔ اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ اس کے اشاریہ میں کمی آ ئی ہے، یہ گزشتہ سال کے مقابلے 6.6 فیصد سے گھٹ کر5.1 فیصد ہوگئی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں نے کام مانگا تھا، ان کی5فیصد آبادی کام حاصل نہیں کر سکی ہے۔ جہاں تک کام کرنے والی آبادی کا سوال ہے تو اس کے اندر کام مانگنے والوں کی شرح گھٹ بڑھ رہی ہے۔ یہ اشاریہ یہ بتانے کی کوشش کرتاہے کہ کل آبادی میں کتنے لوگ برسرروزگار ہیں۔ جہاں تک عورتوں کی لیبر فورس میں شمولیت کا سوال ہے تو موجودہ اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ ان کا تناسب دھیرے دھیرے بڑھ رہا ہے اور ان کے کام کرنے کی شرح2019-20 اور2022-23 کے درمیان بہتر ہوئی ہے۔ پی ایل ایف ایس رپورٹ کے مطابق تین طرح کے کام مارکیٹ میں مہیا کرائے جاتے ہیں خود روزگاری، مستقل مزدوری اور غیر مستقل مزدوری۔ ان تینوں اقسام کے تحت کورونا کے دوران ماہانہ آمدنی کم ہوگئی تھی لیکن اس کے بعد اس میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ چھ سالوں میں آمدنی کے ماہانہ اضافے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے موازنہ کیا جائے تو2019سے لوگوں کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔ کیونکہ مہنگائی کی شرح مستقل 4فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ اپنا روزگار کرنے والوں کی آمدنی2017-18 میں12318روپے تھی جوکہ 2022-23 میں13343روپے ہے۔ مستقل کام کرنے والے لوگوں کی مزدوری 2018 میں 19405 روپے تھی وہ 2022-23 میں20039روپے ہے۔ غیر مستقل طور پر کام کرنے والے لوگوں کی مزدوری 2018-19میں6959روپے تھی وہ 2022-23 میں7899روپے ہے۔
خود روزگاری کے سیکٹر میں 2017-18میں52.2 فیصد لوگ کام کررہے تھے جو2022-23میں بڑھ کر 57.3 فیصد ہوگئی ہے، انہی سالوں کیلئے عورتوں میں یہ شرح 51.9تھی جو بڑھ کر2022-23میں6.3فیصد ہوگئی ہے۔ مستقل اور غیر مستقل طور پر کام کرنے والے لوگوں کی شرح میں2017-18اور2022-23کے دوران کمی آئی ہے۔ غیر مستقل کام کرنے والے لوگوں کی شرح2017-18 میں24.9فیصد تھی جو گھٹ کر 2022-23میں21.8ہوگئی ہے۔مستقل کام کرنے والے لوگوں کی شرح 2017-18 میں22.8فیصد تھی جو2022-23میں کم ہوکر20.9فیصد ہوگئی ہے۔ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ خود روزگاری میں اضافہ ہوا ہے لیکن مستقل اور غیرمستقل طورپر کام کرنے والے لوگوں میں کمی آئی ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ عورتوں میں خود روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ تجزیہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جیسے جیسے معاشی صورتحال بہتر ہوگی، اسی کے حساب سے نوکریوں میں مزدوروں کی مزدوری میں بھی اضافہ ہوگا۔ لیکن ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ نتیجہ کب تک حاصل کیا جا سکتا ہے۔ عالمی سطح پر عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ معاشی ترقی میں اضافہ کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ہندوستان میں یہ تجربہ بالکل مختلف ہے، گزشتہ کئی سالوں میں زراعت کے شعبے میں روزگار کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ صنعت کے سیکٹر میں روزگار میں کمی آئی ہے۔
مرکزی حکومت نے بیروزگاری کو دور کرنے اور روزگار کے مواقع کو بڑھانے کیلئے وقتاً فوقتاً کئی سارے پالیسی اقدامات کیے ہیں، کورونا کے دوران مرکزی حکومت نے آتم نربھر بھارت پیکیج کا اعلان کیا تھا جس کے تحت 27 لاکھ کروڑ اضافی فنڈ مہیا کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس پیکیج کے تحت طویل مدتی پالیسی، اسکیمیں اور پروگرام کے ذریعہ ملک کو خودانحصار بنانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مزید یکم؍اکتوبر 2020 کو حکومت نے آتم نربھر بھارت روزگار یوجنا کی شروعات کی جس کا مقصد روزگار دینے والوں کی حوصلہ افضائی کرنا تھا تاکہ وہ نئے روزگار کے مواقع پیدا کرسکیں۔ اس کے ساتھ ہی کورونا کے دوران جو روزگار ختم ہوگئے تھے، ان کی بحالی اور کام کرنے والوں کو سماجی تحفظ مہیا کرانا تھا۔ حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق جون 2022 تک 1.49لاکھ کمپنیوں میں5949 لاکھ لوگوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔
خود روزگاری کے مواقع پیدا کرنے کیلئے مرکزی حکومت نے پردھان منتری مدرا یوجنا کی شروعات کی، اس یوجنا کے تحت بغیر کسی ضمانت کے10لاکھ روپے تک کا قرض چھوٹے بزنس کرنے والوں کو مہیا کرایا جاتاہے تاکہ وہ اپنے بزنس کے دائرہ کو بڑھا سکیں، اس کے علاوہ حکومت 60لاکھ نئی نوکریوں کو پیدا کرنے کیلئے پیداوار سے متعلق حوصلہ افزائی اسکیم نافذ کررہی ہے۔ 2020 میں مرکزی حکومت نے غریب کلیان روزگار یوجنا کی شروعات کی جس کا مقصد اترپردیش، راجستھان، اوڈیشہ، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اور بہار کے116اضلاع میں جو لوگ شہروں سے واپس اپنے گاؤں آئے تھے، ان کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ اس کے تحت حکومت نے9293 کروڑ روپے خرچ کیے تھے۔ مرکزی حکومت نے پردھان منتری گتی شکتی پروگرام کی شروعات کی جس کا مقصد معاشی ترقی کو مزید تقویت دینا تھا، اس کے تحت حکومت نے روڈ، ریل، ایئرپورٹ، بندرگاہ، ٹرانسپورٹ، انفرااسٹرکچر اور پانی کے راستوں پر خاص زور دیا گیا تھا۔ حکومت نے مزید روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے پردھان منتری روزگار یوجنا، منریگا، گرامین کوشل یوجنا اور نیشنل لائیولی ہوڈ مشن کے ذریعہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ کئی اور مختلف کوششیں روزگار کے مواقع کو بڑھانے کیلئے کی گئی ہیں جیسے کہ اسٹارٹ اپ انڈیا، اسٹینڈ اپ انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا، اسمارٹ سٹی مشن، امرت اور سب کیلئے گھر مہیا کرانا شامل ہیں۔ ان تمام کوششوں کے باوجود ملک کے سامنے سب سے بڑا چیلنج نوجوانوں کے سامنے بڑھتی ہوئی بیروزگاری ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق نوجوانوں کے اندر بیروزگاری کی شرح 23 فیصد ہے جبکہ چین اور انڈونیشیا میں 13 فیصد، ملیشیا میں 11.7 فیصد، ویتنام میں 7.4 فیصد، جنوبی کوریا میں 7 فیصد اور سنگاپور میں 6 فیصد ہے۔ لہٰذا تمام سیاسی پارٹیوں کے ذریعے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کو دور کرنے کیلئے مضبوط پالیسی اقدامات کرنے چاہیے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]