ہندوستانی جمہوریت پر ایک بار پھر سنگین سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور اس بار نشانے پر ملک کا سب سے باوقار انتخابی ادارہ الیکشن کمیشن ہے۔ ترنمول کانگریس کی جانب سے ووٹر شناختی کارڈ (ای پی آئی سی نمبر) کے متعلق جو الزامات عائد کیے گئے ہیں وہ نہ صرف انتخابی شفافیت پر ضرب ہیں بلکہ اس امر کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ کس طرح ایک آزاد جمہوری ادارہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر اثر نظر آ رہا ہے۔
یہ معاملہ اس وقت منظرعام پر آیا جب مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے 27 فروری کو انکشاف کیا کہ کئی ووٹروں کے پاس ایک ہی ای پی آئی سی نمبر ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس الزام کی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ یہ محض ایک ’دستی غلطی‘ ہے، جس کی بنا پر دو ریاستوں کے ووٹرز کو ایک ہی شناختی نمبر الاٹ ہوگیا۔ تاہم ٹی ایم سی نے اس وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کے اپنے ہی رہنما خطوط کے خلاف ہے۔ پارٹی نے مطالبہ کیا کہ اگر الیکشن کمیشن 24 گھنٹے کے اندر اپنی غلطی تسلیم کر کے اصلاحی اقدام نہیں کرتا تو وہ مزید ثبوت پیش کرے گی۔
ٹی ایم سی کے رہنما ساکیت گوکھلے نے الیکشن کمیشن کے بیان کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ ووٹر شناختی کارڈ جاری کرنے کا طریقہ کار پہلے سے طے شدہ ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی دوہرائی ممکن نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ای پی آئی سی نمبر تین حروف اور سات نمبروں پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر اسمبلی حلقے کیلئے ان تین حروف کا مختلف ہونا لازم ہے۔ ایسی صورت میں مغربی بنگال کے ووٹروں کے شناختی نمبر ہریانہ، گجرات اور دیگر ریاستوں میں کیسے پہنچے؟ یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے۔
الیکشن کمیشن کا یہ دعویٰ کہ ایک ہی شناختی نمبر رکھنے والے ووٹرز اپنے متعلقہ حلقوں میں ہی ووٹ ڈال سکتے ہیں بھی گمراہ کن ثابت ہوا ہے۔ ووٹر لسٹ میں تصویر ای پی آئی سی نمبر سے منسلک ہوتی ہے۔ اگر ایک ہی شناختی نمبر دو مختلف ریاستوں کے ووٹرز کو جاری کیا گیا ہے تو جب ووٹنگ کے وقت اس کی تصدیق کی جائے گی تو ایک شخص کو اس کا حق رائے دہی استعمال کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ اس صورتحال سے بی جے پی مخالف ووٹرز کو غیر فعال کرنے کی سازش کی بو آتی ہے۔
اس پورے معاملے میں سب سے سنگین الزام یہ ہے کہ الیکشن کمیشن خود ایک ایسے سافٹ ویئر کا استعمال کرتا ہے جو ہر جاری شدہ اور غیر استعمال شدہ ای پی آئی سی نمبروں کو ٹریک کرتا ہے تاکہ دو افراد کو ایک ہی نمبر الاٹ نہ ہو۔ اس کے باوجود اگر ایسا ہوا ہے تو یا تو یہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے یا پھر یہ کمیشن کی سنگین نااہلی کا ثبوت ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں اس ادارے کی ساکھ پر سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ تنازع اس وقت اور بھی زیادہ تشویشناک نظر آتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ الیکشن کمشنروں کی تقرری کا اختیار براہ راست مودی حکومت کے پاس ہے۔ ایک تین رکنی کمیٹی جس میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ شامل ہوتے ہیں، اکثریتی رائے سے فیصلہ کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد ادارے کے بجائے ایک حکومتی آلہ کار کے طور پر کام کر رہا ہے۔
ٹی ایم سی کے ریاستی جنرل سیکریٹری برائے آئی ٹی اور سوشل میڈیا نیلنجن داس نے دو ووٹرز کے ایک ہی شناختی نمبر کے ساتھ موجود ہونے کے ثبوت پیش کیے جب کہ پارٹی کی ڈپٹی لیڈر ساگاریکا گھوش نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی حکومت نے گجرات، ہریانہ اور اتر پردیش کے ووٹرز کو بنگال کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ یہ الزامات بے حد سنگین ہیں اور انتخابی عمل کی شفافیت پر براہ راست حملہ ہیں۔
اس تنازع کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے ملک کے تمام چیف الیکٹورل آفیسرزاور ڈسٹرکٹ الیکٹورل آفیسرز کو ہدایت دی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ میٹنگ کریں اور ان کے اعتراضات سن کر 31 مارچ تک رپورٹ پیش کریں۔ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کی جانب سے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے سی ای اوز کے ساتھ ایک دو روزہ میٹنگ بھی کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ ہر ووٹر کو اس کا حق ملنا چاہیے اور کسی بھی انتخابی افسر کو دھمکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ محض رسمی بیانات ہیں یا واقعی ان پر کوئی عملدرآمد بھی ہوگا؟ اس سے قبل بھی جب الیکشن کمیشن پر حکومتی دباؤ کے الزامات لگے تو اس نے محض وضاحتی بیانات جاری کیے مگر حقیقی اصلاحات کا کوئی عملی ثبوت سامنے نہیں آیا۔
الیکشن کمیشن کسی بھی جمہوری ملک میں سب سے بڑا غیر جانبدار ادارہ ہوتا ہے، اگر یہ بھی حکومت کی کٹھ پتلی بن جائے تو جمہوریت کی روح مجروح ہو جاتی ہے۔ یہ صورتحال صرف مغربی بنگال تک محدود نہیں بلکہ اگر الیکشن کمیشن کی غیر ذمہ داری کو چیلنج نہ کیا گیا تو یہ مستقبل میں پورے ملک کے انتخابی عمل پر سوالیہ نشان لگا سکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن اپنی ساکھ بحال کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرتا ہے یا یہ معاملہ بھی دیگر تنازعات کی طرح محض ایک سیاسی الزام بن کر رہ جائے گا؟