امیرِ شریعتِ ثامن کے سامنے لا مختتم سیاسی ،سماجی اور تنظیمی چیلنجز
مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کے لیے اپنا انفرادی نقش قایم کرنا آسان نہیں مگر جدید تعلیم اور جدید دنیا کے بہ راہِ راست تجربے کے سبب وہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔
[آخری اور قسط پنجم ]
صفدرا مام قادری
مولانا ولی رحمانی کے ارتحال کے بعد سے مختلف گوشوں سے ایسی اطّلاعات آنے لگی تھیں کہ نئے امیرِ شریعت کے لیے ان کے صاحب زادے احمد ولی فیصل رحمانی اُمیّدوار ہو سکتے ہیں۔اسی لیے ان کی تعلیم اور ان کی شخصیت کے تعلق سے مختلف حلقوں سے اختلافی بیانات سامنے آنے لگے۔کچھ تحریروں میں کردار کُشی کی بھی کوششیں ہوئیں۔اس کے ردعمل میںرحمانی حلقے سے بھی جوابات پیش کیے جاتے رہے۔اب جب کہ اربابِ حل و عقد نے انھیں باضابطہ طور پر منتخب کر لیا ہے،اس لیے پرانی باتوں کو دہرانا بے وقت کی راگنی سمجھا جائے گا ۔سوال وجواب اور اشتعال میں پوچھے گئے سوال یا پیش کردہ جواب کی اکثر منطقی بنیادیں کمزور ہوتی ہیںمگر بعض ایسے سوالات بھی سامنے آئے جن کے جوابات ہر فریق کو چاہے۔ نئے امیرِ شریعت کیوں نہ ہوں،انھیں جواب دینا ہی پڑے گا۔بعض سوالوں کے جواب میں تو امیرِ شریعت کو اپنی کارکردگی ہی پیش کرنی پڑے گی۔امارتِ شرعیہ کی جتنی تابناک اورروشن تاریخ ہے،اس کے مطابق نئے امیرِ شریعت کو کسی حلقے کا حصّہ نہیں بننا چاہیے۔انتخاب میں کامیابی کے فوراً بعد انھوں نے سب لوگوں کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا جو نشانہ پیش کیا،وہ گذشتہ چند دنوں میں عملی شکل لیتا ہوا نظر آتا ہے۔امیر کی یہ بڑی جواب دہی ہوتی ہے کہ انتشار کے ہر موڑ پر اتّفاق اور محبت کا کوئی پیغام پہنچادیا جائے۔
انتخاب میں فتح یابی کے فوراً بعد انھوں نے عوام کے نام جو پہلا خطاب کیا،اس میں قومی اور عالمی صورتِ حال اور اہلِ اسلام کے لیے ہر سطح پر عرصۂ حیات تنگ ہونے کا ذکر تھا ۔انھوں نے تعلیم اور جدید تعلیم کے فروغ کے لیے اپنا ایک واضح نقطۂ نظر پیش کیا ۔مجلس میں موجود اربابِ حل وعقد کے افراد کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ امیرِ شریعت کے ذہن میں کچھ نیا کرنے کے لیے واضح خواب ہیں۔اگلے روز ان کا ایک اور بیان شایع ہوا جس میں اسلامی اور عصری تعلیم کے بیچ جو خطِ تقسیم موجود ہے، اس سے انھوں نے بے زاری اور بے اطمینانی کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کے لیے یہ نقلی بٹوارے ہیں ۔ضرورت اور مقصد کے تحت علم کی شکلیں بدلتی ہیں اور انسان ان کے حصول کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔اس لیے انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیم کی اتنی خانہ بندی قوم کی ترقّی میں رُکاوٹ ثابت ہوگی۔
کورونا کی طویل وبائی صورتِ حال اور مشکل دور میں جناب فیصل رحمانی کو امیرِ شریعت کا عہدہ ملا ہے۔چھے مہینوں کے وقفے میں امارتِ شرعیہ کا دفتر ہزار طرح کی سازشوں کا اڈا ہو گیاتھا۔شہرِ عظیم آباد، صوبۂ بہار اور پورے ملک میں گذشتہ مہینوںمیں امارتِ شرعیہ کے سلسلے سے جتنی ہنگامہ آرائیاں ہوئیں ،ان میں سے ہر بات کا کوئی نہ کوئی سِرا امارتِ شرعیہ کے دفتر اور اس کے کسی نہ کسی اہل کار سے جڑا ہوا پایا گیا۔مشاہدین اس بات پر مکمّل یقین رکھتے ہیں کہ ہر کھیل تماشے میں یہ افراد کسی نہ کسی جہت سے شامل ہو جاتے تھے یا شامل کر لیے جاتے تھے۔امیرِ شریعت کے انتخاب کی تاریخ کے تعین میں جو خلفشار پیدا ہوا ،اس میںبھی کہیں نہ کہیں امارتِ شرعیہ کے دفتر اور اس کے اہل کاروں کی شرکت بتائی جاتی ہے۔
امیرِ شریعت کے لیے یقینا سب سے بڑا مسئلہ اس دفتری نظام کو درست کرنا ہوگا۔وہ ماضی میں مینجمنٹ کے طالب علم اور استاد بھی رہ چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ خانقاہِ رحمانہ، جامعہ رحمانی،رحمانی فاؤنڈیشن اور رحمانی ۳۰ جیسے اداروں میں خاموشی سے اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے رہے۔گذشتہ پانچ برسوں میں اس دائرۂ کار میں کہیں نہ کہیں امارتِ
شرعیہ بھی آئی ہوگی۔اس تجربے سے انھیں موجودہ ذمّہ داری کو بہ حسن و خوبی ادا کرنے میں اچھی خاصی مدد ملے گی۔عین ممکن ہے کہ امارتِ شرعیہ کے تمام ذیلی اداروں کے کار کنان اور خود امارتِ شرعیہ کے تنظیمی ڈھانچے کو سر گرم کرنے کے لیے انھیں بعض سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ممکن ہے آنے والے وقت میں نظام میں انقلاب آفریں تبدیلیاں بھی آئیں اور امارتِ شرعیہ کا دفتر جس انداز سے اب تک چلتا رہا ہے، اس میں ایک معنیٰ خیز تبدیلی آ جائے،عوام میں ایسی واضح توقعات نظر آنے لگی ہیں۔امارتِ شرعیہ سو برس کا ایک بھر پور زمانہ دیکھ چکا ؛اب اس کی شریانوں میں تازہ لہو شامل کرنا ضروری ہے۔ترقّی یافتہ اور جدید دنیا کے بہ راہِ راست تجربات مولانا فیصل رحمانی کے پاس موجود ہیں۔امارتَ شرعیہ کے دفتری نظام کا خاکہ کم وبیش اسی پُرانے مدرّسانہ انداز پر مرتَّب ہوا۔مولانا ولی رحمانی نے کار کردگی کے انداز و اسالیب بدلنے کی کوشش کی اور کاموں کی رفتار بڑھانے میں کامیاب ہوئے۔نئے نئے ادارے اور ذیلی تنظیمیں بنا کر امارتِ شرعیہ کو عوام و خواص کی زندگی سے جوڑنے اور دائرۂ کار کو پھیلانے میں ان کی سرگرمیاں یاد رکھی جائیں گی۔قدرت نے انھیں وقت نہیں دیا اور آخر کا ایک سال تو وبا کی رُکاوٹوں کی نذر ہو گیا۔اس کی وجہ سے امارتِ شرعیہ ایک نئے اور سرگرم ادارے کے طور پر پورے طور پر سامنے نہیں آ سکی ۔
موجودہ امیرِ شریعت کے پاس صوفیانہ تربیت ،جدید تر تعلیم کا فیضان اور عالمی سطح پر اداروں کے بدلتے ہوئے رُخ اور کام کرنے کے انداز سے بھر پور واقفیت موجودہے۔دفاتر کو جدید تکنیک کی مدد سے کس طرح سجایا،سنوارااور سنبھالا جا سکتا ہے ،اسے وہ خوب خوب جانتے ہیں۔بزرگوں کی دعائیں اور اربابِ حل وعقد کی بھر پور اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ایسی صورتِ حال میں ہر شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ امارتِ شرعیہ کا دورِ جدید اپنے قلم سے رقم کریں۔اُن کے والد واضح تصوّر کے ساتھ کوئی کام کرتے تھے۔اس سلسلے کو انھیں آگے تک بڑھانا ہے اور امارتِ شرعیہ کو اس کی حقیقی اور نئی منزل عطا کرنی ہے۔یہ آسان کام نہیں ہے مگر ان کے پاس صحت اور تندرستی کے ساتھ ساتھ طبعی عمر کی بہت ساری منزلیں ہم رکاب ہیں۔وہ چاہیں تو امارتِ شرعیہ کی دنیا بدل دیں۔بڑے بڑے علماے دین کو چھوڑ کر اربابِ حل وعقد نے انھیں جس خاص اہتمام اور مقصد کے لیے امیرِ شریعت چُنا ہے،اسے یقینی طور پر وہ سمجھتے ہوں گے۔مستقبل کا مورخ اس انتظار میں ہے کہ سید احمد ولی فیصل رحمانی اپنے عہدِ امیرِ شریعت میں وہ کام کر جائیں گے جسے تاریخ یاد رکھے گی۔
نئے امیرِ شریعت کے لیے پہلا چیلنج تو ان کے والد اور ساتویں امیرِ شریعت کی مقبول عام شخصیت کا بدل بننا ہے۔گذشتہ تین دہائیوں میں ولی رحمانی اپنی تحریر،اپنی تقریر اور سماج کے ہر انداز کے طبقے میں ایک حیرت انگیز شخصیت کے مالک کے طور پر سمجھے جاتے تھے۔اہلِ سیاست کے سامنے ان کی گرمیٔ گفتار اس بات کی شاہد تھی کہ وہ کسی وزیرِ اعلا اور کسی وزیر اعظم سے خوف نہیں کھاتے تھے۔سیاست ،،مذہب ،تعلیم ،صحت ،ادارہ سازی اور مسلمانوں کے مخصوص مسائل کے ساتھ ساتھ ہم وطنوں سے مکالمات کا ان کا جو دانشوارانہ انداز تھا، ہندستانی عوام موجودہ امیرِ شریعت سے اس کی بھر پور توقع کریں گے۔انتخاب کے بعد انھوں نے جو مختصر تقریر کی، اس سے اتنا تو اندازہ ہوا کہ وہ کام کی باتوں پر اپنی گفتگو کا مدار رکھتے ہیں مگر اپنے والد کی طرح نپے تلے اور نکیلے انداز میں اردو زبان کی سِحر انگیزی کے ساتھ اپنی باتیں پیش کرنا ان کے لیے اگلا نشانہ ہونا چاہیے۔مولانا ولی رحمانی کی مقبولیت اور ان کے پیچھے لاکھوں افراد کا جمِّ غفیر ہوتا تھا۔ وہ ان کی تقریری مہارت اور زبان و بیان کی حسن کاری سے مزید روشن ہوتا تھا۔یہ مولانا ولی رحمانی کی ایک دن کی کمائی نہیں تھی۔ندوۃالعلما،دارالعلوم دیوبند،جامعہ رحمانی اور امارتِ شرعیہ کے پچاس سال سے زیادہ کے تجربات کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔یہ یاد رہے کہ امیرِ شریعت کی مقبولِ عام شخصیت کی تشکیل میں یہ تمام چیزیں لازم ہیں، آنے والے وقت میں مولانا فیصل رحمانی سے لوگ اس بات کی توقع کریں گے کہ مقبولیت اور دانش ورانہ جہت میں کیا وہ اپنے والد کے ہم سر ہو سکتے ہیں؟
آج ہندستانی مسلمانوں کو سماجی اور سیاسی مورچوں پر عجیب و غریب پسپائی کا احساس ہوتا ہے۔ایسی حالت میں کسی فرقہ وارانہ جماعت سے بہ راہِ راست تعلق کو ہندستانی عوام شاید پسند نہ کریں۔مولانا انیس الرحمان قاسمی کے دورِ نظامت پر کچھ سوالات تو تھے ہی مگر این۔ڈی۔اے حکومت میں ان کے اندر تک گھسے ہونے کی بات بھی ہمیشہ سامنے آتی رہی۔اربابِ حل وعقد نے یہ بھی دیکھا کہ فرقہ پرستوں سے سیدھے مقابلے کے وقت کسی ایسے چہرے کو کیوں اپنا سربراہ چنا جائے جو اسی حکومت کا حصّہ بننے اور ا س کی سہولیات کے حصول کے در پے ہے۔مولانا فیصل رحمانی سے لوگوں کی توقع ہے کہ وہ سیاسی مورچوں پر اسی طرح بے باک اور نڈر بن کر سامنے آئیں جسیے ان کے والد ہمیشہ سامنے آتے تھے۔یہ قوم کے مفاد میں جِد وجہد اور مقابلہ آرائی کا راستہ ہے مگر یہیں سے بزمِ گیتی کو ایک روز نئی روشنی ملے گی۔مولانا ولی رحمانی جب امیرِ شریعت بنے ، اس سے پہلے سے ان کی قومی شناخت تھی۔مگر مولانا فیصل رحمانی کو اپنے لیے نئے سِرے سے پہچان کا راستہ ڈھونڈنا پڑے گا۔عہدے کے ساتھ ہر روز نئے نئے کاموں سے اپنے آپ ان کی پہچان بنتی جائے گی اور چند برسوں میں ہندستان گیر سطح پر انھیں پہچانا جانے لگے گا ، اس میں کسی کو کوئی مغالطہ نہیں ہونا چاہیے۔
موجودہ امیرِ شریعت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ان کے مخالفین کی طرف سے یہ بھی لگایا گیا کہ وہ رواجِ عام کے مطابق مولانا نہیں ہیں۔ان کے مخالفین انھیں انجینئر اور مینیجر کہتے ہیں۔بھلے ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت جامعہ رحمانی میں اور خود ان کے والد کی نگرانی میں ہوئی ہو اور وہ جامعہ ازہر سے بھی کسی کورس کے فارغ ہیںمگر ان تمام سوالوں کے جواب انھیں اپنی موثر کار کردگی سے پیش کرنی ہوگی۔یہ کوئی ناممکن بات نہیں کہ کچھ برسوں میں ان کی باتیں ایک طرف عالمِ دین جیسی ہونے لگیں گی اور دوسری طرف جدید دنیا کے واقف کار کے حربوں سے وہ اپنے کاموں کو بدلتے ہوئے پائے جائیں گے مگر ان الزامات اور ان کے عقیدت مندوں کی توقعات کا صرف ایک ہی پیمانہ ہمیں نظر آتا ہے وہ ان کی حسنِ کار کردگی ہوگی۔انھیں اپنے انتخاب کے مراحل میں یہ بات ٹھیک طریقے سے معلوم ہو چکی ہے کہ اس راہ میں کانٹے زیادہ ہیں اور پھول کم۔سازشیں زیادہ ہیں اور معاونت کم سے کم ہیں مگر جسے ذمّہ داری ملی ہے اسے ایک ایک رُکاوٹ سے مقابلہ کرنا ہوگا ۔دنیا جب ان کے کام دیکھے گی تو اسے اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ ان کی راہ کے کانٹے تو انھیں اور حوصلہ دیتے ہیں ۔سازشوں سے کار کردگی میں مہارت پیدا ہوتی ہے ۔ اس حال میں مخالفین اور معاندین بھی ان کے ساتھ آ کر اپنے حصّے کی کوئی کار کردگی پیش کر نے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔اسی دن سے وہ نئی تاریخ لکھنے لگیں گے۔تھوڑے دنوں تک مخالفت اور سازشوں کا بازار گرم ہوگا مگر نئے امیرِ شریعت اپنے انتظامی سوجھ بوجھ اور کام کرنے کی رفتارسے ان تمام رُکاوٹوں کو دور کر سکتے ہیں۔بہت بڑی عوامی توقعات ان کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہیں۔اس بار سے کمزور آدمی بکھر جائے گا مگر مضبوط آدمی اس کے بر عکس نکھر کر سامنے آتا ہے۔
یہ ضرور ہے کہ اب ان کے لیے چین سے بیٹھنے کا کوئی موقع نہیں۔زندگی میں جتنا وقت ہے ، اس سے بڑھ کر ان کے سامنے ذمّہ داریاں ہیں۔وہ نئی دنیا کے فرزند ہیں، اس لیے اس منصب عالی پر وہ وقت گزاری کے لیے نہیں آ رہے ہیں بلکہ وہ امارتِ شرعیہ کو ایک نیا نظام بخشیںگے۔امارتِ شرعیہ کو عہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنا نیا دستور اور کار کردگی کے لیے نیا آئین بنانا ہوگا۔نئی تعلیم کی روشنی سے اگر امارتِ شرعیہ کی جانب سے ادارے قایم کرنے کی ایک مہم شروع ہو جائے تو امارتِ شرعیہ کا دائرۂ کار بھی بدلے گا۔امارتِ شرعیہ کا اسپتال کام چلاو قسم کی خدمات انجام دے رہا ہے۔اسے جدید اسپتال اور معیاری ڈاکٹروں کی خدمات سے اونچا اُٹھانا ہوگا۔چالیس برس سے اگر ممتاز معالج ڈاکٹر احمد عبد الحئی اس کے چیر مین تھے تو اسپتال کی کار کر دگی کا معیار کیوں ان کی شایانِ شان نہیں ہو سکا۔امیرِ شریعت کو اس جانب بھی پوری توجہ دینی پڑے گی ورنہ بڑے بڑے ناموں سے ادارے کی ترقّی نہ ہونے والی ہے۔ قوم کو کام چاہیے اور معیاری خدمت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر اس جانب توجہ نہ ہوئی تو امارتِ شرعیہ کی مستقبل پسند ترقّی میں رُکاوٹیں آتی رہیں گی۔نئے امیرِ شریعت کے لے یہ تمام اہداف فصیلِ وقت پر شاہ سرخیوں میں کندہ ہیں۔ ان کی کامیابی کا سارا دار و مدار ان کی موثر کار کردگی میں پہناں ہے۔لوگ ان کے اقدام کا انتظار کرتے ہوئے ملیں گے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]
[email protected]