غزہ جنگ کے یوکرین جنگ پر اثرات

0

امریکہ کے افغانستان اور عراق میں جنگوں میں الجھ جانے، بڑی مشکل سے پہلے عراق اور پھر افغانستان سے نکلنے تک دنیا کافی بدل چکی ہے۔ نہ امریکہ کی پہلے والی پوزیشن رہ گئی ہے، نہ ہی یوروپی ممالک پہلے کی طرح بہتر پوزیشن میں ہیں۔ کورونا نے ان کی اقتصادی حالت خستہ کر دی ہے۔دوسری طرف 20 سال پہلے کے مقابلے روس مستحکم ہوا ہے، چین کا دائرۂ اثر بڑھا ہے۔ اسی لیے روس نے امریکہ اور مغربی یوروپ کے یوکرین سے تعلقات کی پروا کیے بغیر اس پرحملہ کر دیا۔ حملے کے سلسلے میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کا موقف واضح تھا کہ وہ ناٹو کو روس کی سرحد تک آنے دینا نہیں چاہتے۔ اس جنگ میں امریکہ اوریوروپی ممالک نے جس طرح روس کا ناطقہ بند کرنے اور یوکرین کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کی، اس سے پوتن ناواقف نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس جنگ نے روس کی امریکہ اورمغربی یوروپ کے ممالک سے دوری اور بڑھا دی ہے۔ اس کا احساس پوتن کے بیانات سے ہوتا ہے۔ حال ہی میں امریکی خفیہ رپورٹ کے حوالے سے یہ خبر آئی تھی، ’یوکرین جنگ میں اب تک 3 لاکھ 15 ہزار روسی فوجی یا تو مارے گئے ہیں یا زخمی ہوئے ہیں۔ یہ حملے کے وقت جتنے روسی فوجی تھے، اس کا 90 فیصد ہے۔‘ ظاہر ہے، یہ خبر اس بات کا اشارہ تھی کہ جنگ میں روس کی پوزیشن اچھی نہیں ہے، وہ یوکرین جنگ ہار رہا ہے، کیونکہ اس کے پاس لڑنے کے لیے کافی کم فوجی رہ گئے ہیں۔ اس خبر کا اثر روسیوں اور روس کے اتحادیوں پر پڑنا فطری تھا، چنانچہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس سلسلے میں روس اپنی پوزیشن واضح کرے، اسی لیے یوکرین جنگ کے بعد پہلی بار روسی صدر ولادیمیر پوتن کو باضابطہ پریس کانفرنس کرنی پڑی، یہ بتانا پڑا کہ روس کی جو پوزیشن بتائی جا رہی ہے، اصل میں اس کی ویسی خراب پوزیشن نہیں ہے۔ پوتن نے کہا کہ جنگ کے باوجود روس کی اقتصادیات مستحکم ہے۔ ان کے مطابق، جنگ میں 6 لاکھ 17 ہزار فوجی شامل ہیں۔ 3 لاکھ لوگوں کو فوج میں شامل کرنے کے لیے بلایا گیا ہے جبکہ 4 لاکھ 86 ہزار لوگوں نے اپنا نام اپنی مرضی سے کانٹریکٹ فوجی کے طور پر رجسٹرڈ کرایا ہے تاکہ مادر وطن کی حفاظت کے لیے جنگ لڑ سکیں، لیکن روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یہ نہیں بتایا کہ یوکرین جنگ میں اب تک کتنے روسی فوجیوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑی ہیں۔ اگر وہ بتا دیتے تو یہ اندازہ لگانا آسان ہوجاتا کہ یوکرین جنگ میں روس کی پوزیشن کیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی پوزیشن کیا رہے گی۔
ولادیمیر پوتن نے یوکرین جنگ میں روسی فوجیوں کی ہلاکتوں کے سلسلے میں چونکہ کوئی حتمی ڈاٹا پیش نہیں کیا ہے، اس لیے فی الوقت یہ کہنا مشکل ہے کہ جنگ میں اس کی پوزیشن اچھی ہے، البتہ یہ کہنے میں تامل نہیں کہ غزہ جنگ اگر جاری رہی تو دھیرے دھیرے روس کی پوزیشن بہتر سے بہتر ہوتی جائے گی۔ امریکہ اور اس کے یوروپی اتحادیوں کے حماس کو ختم کرنے کے نام پر غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت سے یوکرین پہلے کے مقابلے کسی حد تک کمزور پڑا ہے، یوکرینیوں کو یہ اندیشہ ہوگا کہ اگر غزہ جنگ نے وسعت اختیار کر لی، جس کا اندیشہ ہے، پھر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اسرائیل کی مدد کریں گے، یوکرین کی نہیں۔ ایسی صورت میں ان کے لیے روسیوں سے جنگ لڑنا مشکل ہوگا، چنانچہ یوروپی لیڈروں کی انسانیت جوش میں آنے لگے، جنگ ختم کرانے کے لیے سنجیدگی سے کوشش کرنے لگیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے وزرائے خارجہ کے غزہ میں جنگ بندی پر زور دینے کی خبر آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون اور ان کی جرمن ہم منصب انالینا بیئربوک نے غزہ میں دیرپا جنگ بندی پر زور دیا ہے۔‘ اور اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ’بہت زیادہ شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔۔۔۔اسرائیل عسکریت پسند تنظیم حماس کے خلاف اپنے فوجی آپریشن کو جلد اختتام تک لائے۔‘فرانسیسی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا نے بھی ’فوری اور دیرپا جنگ بندی‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے مگر ان کی طرف سے مستقل جنگ بندی کی بات نہیں کہی گئی ہے یعنی فی الوقت بات ’مستقل جنگ بندی‘کی نہیں ہو رہی ہے، اس لیے غزہ جنگ کے وسعت اختیار کرنے کا اندیشہ ہے ۔ یہ صورتحال روس کے لیے اطمینان بخش ہوگی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے غزہ جنگ پر توجہ مرکوز کرنے سے ایک طرف یہ جنگ اس کے لیے آسان ہو گئی ہے تو دوسری طرف غزہ جنگ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ساکھ گری ہے۔ اس سے روس کو دائرۂ اثر بڑھانے کا موقع ملے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS