تشہیر کی چمک میں تعلیمی اندھیرا: ڈاکٹر محمد فاروق

0

ڈاکٹر محمد فاروق

تعلیم کسی بھی مہذب معاشرے کی روح، ترقی یافتہ قوم کی بنیاد اور روشن مستقبل کی کنجی ہوتی ہے۔ اگر قوموں کی ترقی کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ جس ملک نے تعلیم پر سنجیدگی سے توجہ دی وہی اقوامِ عالم میں سرفراز رہی۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد جدید، سائنسی، عقلی اور تحقیق پر مبنی تعلیمی ڈھانچے کی بنیاد پڑی تھی جس کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی بھی ہوئی۔ لیکن آج آٹھ دہائیوں بعد وہی تعلیمی ڈھانچہ منصوبہ بند طریقے سے کمزور کیا جا رہا ہے۔

حالیہ برسوں میں ’پریکشا پہ چرچا‘ جیسے پروگرام جو بظاہر طالب علم کیلئے ایک معاون مکالمہ معلوم ہوتے ہیں، درحقیقت حکومتی ترجیحات کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ یہ تقریب اب تعلیم کے میدان میں جاری نظریاتی، سیاسی اور مالی ناانصافیوں کی علامت بن چکی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں 2018 سے شروع ہونے والے اس پروگرام کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد طلبا، والدین اور اساتذہ کے ساتھ مکالمہ کرکے انہیں امتحانات کے دبائو سے نجات دلانا ہے۔ لیکن اگر اس کے پیچھے پوشیدہ مقاصد، اخراجات کی نوعیت اور تعلیمی نظام پر اس کے اثرات کا تجزیہ کیا جائے تو ایک تشویشناک تصویر ابھرتی ہے۔

یہ پروگرام 2018 میں 3.67 کروڑ روپے کے بجٹ کے ساتھ شروع ہوا تھا اور سات برسوں میں اس کے اخراجات میں 522 فیصد کا ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ 2025 میں یہ رقم بڑھ کر 18.82 کروڑ روپے ہو چکی ہے۔ اس پوری مدت میں کل خرچ 70.88 کروڑ روپے رہا اور یہ سب کچھ صرف آٹھ عدد ایک روزہ پروگراموں پرہوا۔ یاد رہے کہ یہ پروگرام صرف ایک دن منعقد ہوتا ہے مگر اس کی تیاری، تشہیر، سیلفی پوائنٹس، فلم شوٹنگ، ایونٹ مینجمنٹ، کھانے پینے اور اشتہارات پر مہینوں پہلے سے کام شروع ہو جاتا ہے جس پر بھاری مالی وسائل صرف کیے جاتے ہیں۔

حالیہ دنوں ایک آرٹی آئی کے جواب میں جوانکشافات سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق2023 اور 2024 کے درمیان محض 2.49 کروڑ روپے صرف 1,111 سیلفی پوائنٹس لگانے پر خرچ کیے گئے جہاں وزیراعظم کی بڑی تصاویر کے ساتھ طلبا کو سیلفی لینے کی ترغیب دی گئی۔ ہر 3D سیلفی یونٹ پر اوسطاً 1.25 لاکھ روپے جبکہ 2D یونٹ پر 15,000 سے 21,000 روپے تک خرچ آیا۔ اس کے علاوہ صرف 2021 سے 2024 کے دوران ڈیجیٹل پروموشن پر 2.44 کروڑ روپے کی رقم خرچ ہوئی۔ اسی مدت میں لاکھوں روپے اشتہارات، سوشل میڈیا مہمات، ویڈیو کانفرنس، موبائل ٹوائلٹس، آڈیو ویژول آلات، خوراک اور پروموشنل میٹیریل پر جھونکے گئے اور یہ سب کچھ صرف ایک دن کی تقریب کیلئے ہوا۔

یہ بھی چشم کشا حقیقت ہے کہ 2021 میں کووڈ کے سبب یہ تقریب آن لائن ہوئی لیکن اس کے باوجود اس پر 6 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ محض ایک آن لائن تقریر پر اتنا خرچ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پروگرام تعلیم کے بجائے وزیراعظم کی برانڈنگ کا ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔ اسی سال ’ایگزام واریئرز‘ نامی کتاب کی خریداری پر بھی 3.97 لاکھ روپے صرف کیے گئے۔ گویا تعلیمی بجٹ کا استعمال وزیراعظم مودی اور ان کے ساتھیوںکے نظریاتی مواد کو فروغ دینے کیلئے کیا جا رہا ہے۔

ادھر تعلیمی اسکیموں کا حال دگرگوں ہے۔ ’نیشنل مینز کم میرٹ اسکالرشپ‘ اور ’پردھان منتری انوویٹو لرننگ پروگرام‘ جیسی اسکیموں کا بجٹ گھٹایا جا رہا ہے۔2018-19میں ان اسکیموں کا کل بجٹ 559.55 کروڑ روپے تھا جو 2025-26 میں گھٹ کر 429.00 کروڑ روپے رہ گیا یعنی 23.2 فیصد کی کمی۔ ’مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ‘ کو 2024 میں بند کر دیا گیا، جس سے اقلیتی پی ایچ ڈی اسکالرز کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ’نیشنل ٹیلنٹ سرچ ایگزامینیشن‘ جیسے تاریخی پروگرام کو بھی 2021 سے معطل کیا جا چکا ہے جس سے ہر سال تقریباً دو ہزار طلبا وظائف سے محروم ہو رہے ہیں۔

یہ اعداد و شمار صرف حساب کا کھیل نہیں بلکہ قومی ترجیحات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک طرف تعلیم کیلئے مختص بجٹ میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے، سرکاری اسکول بند کیے جارہے ہیں، صرف اتر پردیش میں 27 ہزار پرائمری اسکول بند کیے گئے ہیں تودوسری جانب وزیراعظم کی تصویر والے سیلفی پوائنٹس، اشتہارات اور فلم پروڈکشن پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ اتنے اخراجات کے بعد حاصل کیا ہوا؟ کیا طلبا کے سیکھنے کے نتائج میں کوئی بہتری آئی؟ ’پارکھ راشٹریہ سرویکشن 2024‘ کے نتائج اس کے برعکس کہانی سناتے ہیں۔درجہ 3 کے صرف 55 فیصد طلبا 99 تک کے نمبروں کو صعودی یا نزولی ترتیب سے رکھ سکتے ہیں۔ صرف 58 فیصد طلبا دو ہندسوں کی جمع و تفریق کر سکتے ہیں۔ درجہ 6 میں ریاضی کا قومی اسکور صرف 46 فیصد رہا۔ اس رپورٹ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم کی بنیادی سطح پر شدید بحران ہے جسے سرکاری اصطلاح میں learning poverty کہا جا سکتا ہے۔

ان سب کے باوجود حکومت عوام کو گمراہ کرنے کیلئے نمائشی تقاریب کا سہارا لے رہی ہے۔ تعلیم میں منطق، سائنسی شعور، تنقیدی فکر اور تاریخی حقائق کی جگہ اب میتھالوجی، عقیدت اور نظریاتی تعصبات کو دیا جا رہا ہے۔ ویدوں، اپنشدوں، پرانوں کی کہانیوں کو تاریخ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اس ’نظریاتی تدریس‘ کا بوجھ خاص طور پر دلت، آدیواسی اور اقلیتی طلبا پر پڑ رہا ہے۔ اس ماحول میں تعلیمی ادارے ذات پات پر مبنی اور مذہبی تعصبات سے آلودہ کیے جا رہے ہیں۔ یہ رجحان خاص طور پر بی جے پی کی زیر حکومت ریاستوں یعنی ’ڈبل انجن‘ حکومتوں میں زیادہ نمایاں ہے۔

’پریکشا پہ چرچا‘ جیسے پروگرام تعلیم کی اصلاح کا ذریعہ نہیں بلکہ اس زوال پذیر نظام کو میک اپ دینے کی کوشش ہے۔ ایک ایسا میک اپ جس کے پیچھے خستہ حال اسکول، بند ہوتی اسکیمیں اور مایوس ہوتے طالب علم چھپے ہوئے ہیں۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نمائشی، اشتہاری اور نظریاتی مہم کے خلاف عوامی شعور بیدار ہو۔ تعلیم کو برانڈنگ کا وسیلہ بنانے کے بجائے ایک سنجیدہ قومی ترجیح کے طور پر اپنایا جائے۔ طلبا کو صرف سیلفی کیلئے نہیں بلکہ سچائی، عقل، سوال اور تحقیق کیلئے تیار کیا جائے۔ کیونکہ جو قوم تعلیم کو تشہیر کی نذر کر دیتی ہے، اس کا مستقبل تاریخ کے کچرے دان میں ہی دفن ہوتا ہے۔

ہندوستان کی عظمت کا راستہ اشتہاروں سے نہیں، تعلیمی اداروں کی لائبریریوں، لیباریٹریوں اور کلاس رومز سے ہو کر جاتا ہے۔ اور اگر اس سچ کو نہ سمجھا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS