صرف 4 اضلاع پر مشتمل یونین ٹیریٹری پڈوچیری میں جس تیزی سے اورڈرامائی انداز میں سیاسی حالات بدلے ہیں، اس سے
پورا ملک حیرت زدہ ہے،لیکن یہ سیاست ہے ، اس میں کچھ بھی بعید نہیں۔ سیاست وقت اورحالات کے مطابق چلتی ہی ہے ،
کبھی کبھی بے وقت حالات کا رخ بھی بدل دیتی ہے بس کھلاڑی اور کچھ مہروں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کوئی سوچ سکتا تھا
کہ 33 اسمبلی نشستوں والی چھوٹی سی ریاست جس میں 3 ممبر مرکزی حکومت کی طرف سے نامزد ہوتے ہیں ، وہاں ایسے
وقت میں حکومت کو گرانے اورنئی حکومت بنانے کی سرگرمیاں اتنی تیز ہوجائیں گی کہ سرکار کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
جس پڈوچیری میں 3 ماہ کے اندر اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیںاور 8 جون کو اسمبلی کی میعاد پوری ہونے والی ہے۔ امکان
ہے کہ مئی میں انتخابات ہوں گے۔ موجودہ سرکار کی حلف برداری 16 مئی 2016 کو ہوئی تھی۔ ویسے تووہاں الیکشن کی
تیاریاں ہونی چاہئے بلکہ ہورہی تھیں،لیکن الیکشن سے پہلے سرکار گرانے اورنئی سرکار بنانے کا کھیل شروع ہوگیا جس کا
انجام فلور ٹیسٹ سے پہلے ہی نظر آنے لگا ہے ۔ کانگریس کی وی نارائن سوامی سرکار کا گرنا طے ہے ۔سرکار کے حامی
ممبران کی تعداد 19 سے گھٹ کر 13ہوگئی ہے ،جن میں تنہاکانگریس کے 15 ممبران تھے جو اب 9 ہوگئے اور اپوزیشن
کی صف میں 14ممبران ہیں۔یہاں بھی کرناٹک اورمدھیہ پردیش والا کھیل کھیلا گیا ۔سرکار کے حامی ممبران نے استعفیٰ دے
کر اسے اقلیت میں اوراپوزیشن کو اکثریت میںکردیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جوڑ توڑاور استعفیٰ کی وجہ سے اسمبلی کی 7
یعنی 20فیصد سے زیادہ نشستیں خالی ہوگئیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان خالی نشستوں پر ابھی انتخابات تو نہیں ہوں گے لیکن
اقتدارکی تبدیلی میں ان کا رول سب سے اہم ہوگا ۔
پڈوچیری میں نہ صرف سرکار بدلنے کی باتیں ہورہی ہیں بلکہ جوڑ توڑ کا کھیل جیسے ہی شروع ہوا، سب سے پہلے یہ خبر
آئی کہ وہاں کی لیفٹیننٹ گورنر کرن بیدی کو ہٹادیا گیا اوران کی جگہ تمیلی سائی سندرراجن کو ذمہ داری سونپ دی گئی ،
جنہوں نے حکومت کو اکثریت ثابت کرنے کی ہدایت دی ۔کانگریس لاکھ کوششوں کے باوجود سرکار بچانے میں ناکام نظر آرہی
ہے حالانکہ جب وہاں جوڑ توڑ کا کھیل شروع ہوا تو پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی نے ریاست کا 2روزہ دورہ کیا تھا،
لیکن لگتا ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوسکے کیونکہ ان کے دورے کے بعد بھی پارٹی کے ممبران اسمبلی کے
استعفیٰ کا سلسلہ جاری رہا ۔تادم تحریر 5 ممبران اسمبلی استعفیٰ دے چکے ہیں، جبکہ ایک ممبر کو پارٹی مخالف سرگرمیوں
میں شامل ہونے کے سبب نااہل قرار دیا چکا ہے۔ ان میں سے 2 بی جے پی میں شامل ہوچکے، باقی بھی جلد شامل ہوسکتے ہیں
۔ظاہر سی بات ہے کہ استعفیٰ دینے والے تمام ممبران اگلا الیکشن بی جے پی کے ٹکٹ پر ہی لڑیں گے ۔ حیرت کی بات یہ ہے
کہ 2016 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا تھا ۔ ابھی جن 3 ممبران اسمبلی کو پارٹی کا
بتایا جارہا ہے ، وہ اس کے ٹکٹ پر کامیاب نہیں ہوئے تھے بلکہ ازروئے قانون مرکز کی طرف سے نامزد ہیں۔ چونکہ مرکز
میں بی جے پی کی سرکار ہے ، اس لئے ان کو بھی بی جے پی کا ممبر کہا جارہا ہے ۔ ورنہ عوام الیکشن میں درج فہرست
ذاتوں کیلئے مخصوص 5 نشستوں سمیت 30 ممبران کو ہی منتخب کرتے ہیں ۔ جوڑ توڑ کے اس کھیل کا اثرآئندہ اسمبلی
انتخابات پر یقینا پڑے گا۔
غورطلب امرہے کہ کانگریس کے ساتھ جوڑ توڑ کا کھیل گوا ، کرناٹک ، مدھیہ پردیش، تریپورہ ،منی پوراورمیزروم سمیت
متعدد ریاستوں میں ہوگیا لیکن اس نے اب تک اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔پارٹی الیکشن میں ٹکٹ دیتی ہے اوراس کے
ٹکٹ پر امیدوار کامیاب بھی ہوتے ہیں ،لیکن وہ ان کو پارٹی میں برقرارنہیں رکھ پاتی۔ ممبران کی علاحدگی، استعفیٰ یا دوسری
پارٹی میں شمولیت سے کانگریس کی حکومت بھی گرجاتی ہے ۔ ایسے میں پارٹی کے تعلق سے لوگوں میں کیا پیغام جائے گا؟
اس پر سنجیدگی سے غوروفکر اورٹھوس حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔
[email protected]
پڈوچیری کا سیاسی کھیل
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS