کہتے ہیں کہ آدھا سچ، پورے جھوٹ سے کہیں زیادہ خطرناک اور اذیت ناک ہوتا ہے۔مغربی بنگا ل میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل ان دنوں اسی آدھے سچ کی سیاست زور شور سے ہو رہی ہے۔ پردھان منتری کسان سمان ندھی کے توسط سے مغربی بنگال کے کسانوں کو رقم نہ ملنے کیلئے ممتا حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے والے وزیراعظم نریندر مودی پر ممتابنرجی نے یہی ’آدھا سچ‘ بول کر عوام کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کے یوم پیدائش کے موقع پر25دسمبر کو مرکزی حکومت نے ملک بھر کے9کروڑ کسان خاندانوں کو 18000کروڑ روپے کی رقم تقسیم کی ہے ۔یعنی فی کسان خاندان2000روپے ۔ اس رقم کی تقسیم کو وزیراعظم نے اپنی حکومت کی عظیم الشان کامیابی بتایاہے۔اس کے ساتھ ہی مغربی بنگال کی ممتاحکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعلیٰ ممتابنرجی کی ضد اور انانیت کی وجہ سے مغربی بنگال کے 70لاکھ کسان اس فنڈ سے محروم ہوگئے ہیں۔ممتابنرجی ریاست میں کسانوں کا فائدہ روک کر سیاست کررہی ہیں جب کہ پورے ملک کا کسان اس اسکیم سے فیض اٹھارہاہے۔ صرف مغربی بنگال ہی ایک ایسی ریاست ہے جواپنے یہاں اس اسکیم کونافذ نہیں کررہی ہے۔ بنگال میں70لاکھ کسان ہیں اورا ن میں سے23لاکھ کسانوں نے اس اسکیم سے مستفیض ہونے کیلئے آن لائن درخواستیں گزار رکھی ہیں لیکن ممتابنرجی کی حکومت ان درخواستوں کی توثیق نہ کرکے اپنی ہی ریاست کے کسانوں کو مالی فائدہ سے محروم رکھ رہی ہے۔
کسی فلاحی جمہوری ریاست کا بنیادی فلسفہ ہی یہی ہوتا ہے کہ اس کے باشندو ں کو غر بت کی دلدل سے نکالنے کیلئے ان کی مالی اعانت کی جائے، ان پر رقم خرچ کی جائے، مختلف قسم کے منصوبے بناکر ان کی فلاح و بہبود کے کام کیے جائیں، انہیں کاروبار زندگی چلانے کیلئے بنیادی وسائل مہیا کیے جائیں۔اگر مرکزی حکومت کسانوں کی بہتری کیلئے سمان ندھی جاری کرتی ہے اورکوئی اس میں رخنہ انداز ہوتا ہے تو یہ کھلا ظلم ہے۔ لیکن کیا مغربی بنگال کے معاملے میں وزیراعظم کا یہ الزام درست ہے؟ او ر اگر درست ہے تو مغربی بنگال کے کسان اس کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھارہے ہیں؟ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کیلئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے اسے بجا طور پر ’آدھا سچ ‘ قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم مودی آدھاسچ بتا کر عوام کو گمراہ کررہے ہیں ۔ممتا نے سوال اٹھایا ہے کہ مرکز کو اگر کسانوں سے ہمدردی ہے اوران کے حالات سنوارنا چاہتا ہے تو لاکھوں کسان آج سڑکوں پر احتجاج کیوں کررہے ہیں۔ جہاں تک کسان سمان ندھی کی بات ہے تو وزیراعلیٰ ممتابنرجی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے متعلقہ وزیر سے اس سلسلے میں بات کی تھی مگر سیاسی وجوہ کی بناپر مرکزی حکومت تعاون کرنے کو تیار نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ کسان سمان ندھی مغربی بنگال میں نافذ نہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ مرکز نے ریاستی حکومت کو فنڈ فراہم کرنے سے کھلا انکار کردیا اور کہا کہ وہ براہ راست کسانوں کو رقم دے گی۔ مرکز کایہ رویہ ایک طرف تو اس کے سیاسی تحفظات کا اظہار ہے دوسری طرف یہ ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو کمزور کرنے جیسا ہے۔ ممتابنرجی کی حکومت یہ نہیں چاہتی ہے کہ ریاستی حکومت کے معاملے میں مرکز براہ راست مداخلت کرے۔ بنگال کو اپنے اس حق کے استعمال سے روکنے کیلئے مرکزاسے طرح طرح کے سیاسی زاویہ سے بیان کرکے عوام کو گمراہ کررہا ہے۔
مغربی بنگال کیلئے مرکز کے ذمہ 85ہزار کروڑ روپے واجب الادا ہیں مگر ان کی ادائیگی میں مرکز کو کوئی دلچسپی نہیں ہے، بار بار کے تقاضہ کے باوجود نہ تو اسٹیٹ جی ایس ٹی کی خطیر رقم واپس دی جارہی ہے اور نہ85ہزار کروڑ روپے دیے جارہے ہیں، ایسے میں کسان سمان ندھی کی بابت آدھاسچ گمراہ کن ہی کہاجاسکتاہے۔جہاں تک مغربی بنگال کے کسانوں کی مالی مدد کی بات ہے تو ریاستی حکومت عرصہ سے ’کرشک بندھواسکیم ‘چلارہی ہے، اس اسکیم کے تحت ریاست کے کسانوں کو اب تک کو 2,642کروڑ روپے فراہم کیے گئے ہیں۔
کسان سمان ندھی کے بہانے وزیراعظم نے ایک تیر سے کئی شکار کھیلے ہیں، ایک طرف جہاں اس قدم سے انہوں نے کسانوں کی تحریک کو توڑنے کی کوشش کی ہے، وہیں اگلے سال بنگال میں ہونے والے انتخاب سے قبل اسے بھارتیہ جنتاپارٹی کا اشتہار بھی بنادیا ۔اگر وزیراعظم مغربی بنگال کے کسانوں کے حق کیلئے حقیقتاًسنجیدہ ہیں تو انہیں آدھا سچ بول کر عوام کو گمراہ کرنے کے بجائے پہلی فرصت میں بنگال کی واجب الادا رقم اداکردینی چاہیے تاکہ ریاست کے کسانوں کی مدد کے ساتھ ساتھ دوسری فلاحی اسکیمیں بھی جاری رکھی جا سکیں۔
[email protected]
آدھا سچ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS