ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ: کیا اسپورٹس سے عالم عربی کو متحد کرنے کا کام لیا جا سکتا ہے؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

دنیا کی تاریخ میں ایسے عجائب بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جب کمزور سمجھا جانے والا طبقہ اچانک سے مضبوط ترین قوت کو شکست دے کر اپنا نام ہمیشہ کے لئے قوموں کے اذہان و عقول پر ثبت کر دے اور خود اپنی قوم میں جوش و ہمت اور خود شناسی کے وہ رموز نمایاں کر دے جو اب تک خاک کے پردے میں چھپے ہوئے تھے۔ کچھ ایسا ہی واقعہ دنیا نے گزشتہ ہفتہ قطر میں منعقد ہو رہے فیفا ورلڈ کپ کے اسٹیج پر دیکھا جب سعودی عرب کی فٹبال ٹیم نے جو گلوبل رینکنگ کے اعتبار سے 53ویں مقام پر قائم تھی اس نے فٹبال جگت کی مضبوط ترین ٹیم ارجنٹائن کو شکست سے دو چار کر دیا تھا۔ ارجنٹائن کی ٹیم کی شہرت و عظمت اور اس کی بے پناہ اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی قیادت لیونیل میسی نامی کھلاڑی کے ہاتھ میں ہے جس کو فٹبال کی دنیا میں ایک جادو کے طور پر جانا جاتا ہے۔ میسی کے بارے میں عالمی سطح پر تقریباً اتفاق ہے کہ ان میں ایسی سحر انگیزی پائی جاتی ہے جو ہر روز کھلاڑیوں میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ فٹبال کی تاریخ میں اب تک جتنے بھی افسانوی صلاحیتوں کے کھلاڑی پیدا ہوئے ہیں ان میں لیونیل میسی کا اہم مقام ہے۔ اس ٹیم کی اسی تاریخ اور اہمیت کی بناء پر اسے فیفا ورلڈ کپ جیتنے والی دعویدار ٹیموں کی فہرست میں شمار کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں دو بار فیفا ورلڈ کپ پر اپنا قبضہ جما چکی ارجنٹائن کی ٹیم اپنی اسی اہمیت اور شان دار تاریخ کی جلو میں سعودی عرب کے ساتھ مقابلہ کے لئے اتری تھی۔ ارجنٹائن کے مقابلہ سعودی عرب کی ٹیم کا حال یہ تھا کہ 1998 سے اب تک اس نے اب تک فیفا ورلڈ کپ میں صرف ایک میچ جیتا تھا۔ اس کے علاوہ روایتی طور پر ورلڈ کپ کی جو دعویدار ٹیمیں ہیں وہ اپنے اسٹار کھلاڑی یورپ کی مشہور ٹیموں اور کلبوں سے بھاری قیمت پر منگواتی ہیں۔ اس کے برعکس سعودی عرب میں مغربی یورپ کی لیگوں کے کھلاڑیوں کو خرید کر کھلانے کا کلچر بھی نہیں ہے۔ سعودی عرب کے کھلاڑی مقامی طور پر ہی منتخب کئے جاتے ہیں اور انہیں بہترین ٹریننگ مہیا کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ البتہ حکومت اور عوام کی سطح پر انہیں بھرپور حمایت ملتی ہے۔ ان پہلوؤں کو دھیان میں رکھا جائے تو ارجنٹائن پر سعودی عرب کی فتح کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس جیت سے قبل کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ ایسی کوئی تاریخ رقم ہو سکتی ہے۔ فٹبال کھیل کے ماہرین کا اندازہ یہ تھا کہ ارجنٹائن کی جیت کے امکانات ایک ہزار فیصد ہیں جب کہ سعودی عرب کی جیت کا امکان ایک فیصد ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی اپنی ٹیم کو بس اتنی نصیحت کی تھی وہ مطمئن ہوکر کھیل کو انجوائے کریں۔ شاید جیت کی امید ان کو بھی نہیں تھی۔ لیکن سعودی عرب کی ٹیم نے دنیا کو چونکا دینے کا کوئی پلان اپنے دل میں بنا رکھا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کھیل سے لطف اندوز ہونے کے لئے جو شائقین عالم عربی اور خاص طور سے سعودی عرب سے آ رہے ہیں ان کے لئے نفسیاتی طور پر یہاں پر فتح حاصل کرنا کس قدر اہمیت کا حامل ہوگا۔ اس لئے جب سعودی کی ٹیم میدان پر اتری تو اول وہلہ سے ہی سے اپنے مقصد پر قائم رہی۔ اس نے جس ڈھنگ سے اس کھیل کو کھیلا اور جس جاں سپاری سے ہر کھلاڑی نے اپنا کردار ادا کیا وہ قابل تعریف تھا۔ حریفوں نے بھی کھیل کے تئیں ان کے لگن اور ایمان داری کو سراہا۔ اور جب لیونیل میسی کی موجودگی کے باوجود سعودی عرب کی ٹیم نے یہ فتح حاصل کی تو پوری دنیا میں یہ پیغام گیا کہ ہمت و لگن اور محنت و ایمان داری کے ساتھ اگر کوشش کی جائے تو ہر معرکہ سر کیا جا سکتا ہے اور مضبوط سے مضبوط حریف کو بھی شکست سے دوچار کروایا جا سکتا ہے۔ یہ فیفا کی 92 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس قسم کی مبہوت کن فتح کسی کمزور ٹیم نے مضبوط ترین حریف ٹیم کے خلاف درج کی ہو۔ اس جیت کی معنویات کو سمجھنے کے لئے یہ سمجھنا ہوگا کہ سعودی عرب میں کس حد تک اس کو اہم مانا جا رہا تھا۔ کھیل سے ایک دن قبل سرکاری طور پر تمام ملازمین کو چھٹی دے دی گئی تھی تاکہ وہ یہ میچ دیکھ سکیں اور اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کریں۔ بہت سی پرائیویٹ کمپنیوں نے بھی اپنے آفس بند کر دیے تھے اور اپنے ملازمین کو میچ کے لئے چھٹی دے دی تھی۔ بڑی بڑی اسکرینوں کا انتظام جگہ بہ جگہ کیا گیا تھا جہاں سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں شائقین یہ مقابلہ دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوئے تھے۔ جب سعودی عرب نے ارجنٹائن کے خلاف گول کر دیا تو مارے حیرت و استعجاب کے سعودی شائقین اپنی ہتھیلیوں سے اپنا منہ بند کئے پھٹی آنکھوں سے تاریخ میں رقم ہوتا صفحہ دیکھتے رہے اور جب جیت کا اعلان ہوگیا تو فضاؤں میں مٹھیاں بھینچ کر اچھلتے ہوئے پہلے تو خود کو یقین دلاتے رہے ہم آخر کار تاریخ کے اس ورق میں نام درج کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جن پر اب تک صرف ان کے حریفوں کا نام لکھا ہوتا تھا اور اس کے بعد پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ عرب کو صرف مذاق کا آلہ نہ سمجھا جائے۔ انہیں درہم و دینار کو بے معنی ڈھنگ سے خرچ کرنے اور بے مقصد زندگی گزارنے والا طبقہ شمار نہ کیا جائے۔ سعودی عرب کی جیت سے یہ واضح پیغام گیا ہے کہ عرب اور مسلمان مغرب کی تابعیت سے پیچھا چھڑا کر اپنی قیادت کی بنیاد اسی طرح قائم کر سکتے ہیں جس طرح ماضی کی تاریخ میں کبھی ان کے اسلاف نے کی تھی۔ کھیل کے میدان پر یہ فتح عالم عربی میں ایک بڑے بدلاؤ کا اشارہ دے رہا ہے۔ عرب اور مسلم دنیا دھیرے دھیرے اس نفسیاتی دباؤ سے باہر آ رہی ہے جس کو مغرب نے بڑی ہوشیاری و مکاری سے ان پر تھوپ دیا تھا۔ اب عرب اور مسلم دنیا میں یہ خود اعتمادی پیدا ہوگی کہ اگر ہم کھیل کے میدان پر طلسماتی حیثیت رکھنے والی ٹیم کو شکست دے سکتے ہیں تو علم و آگہی اور تہذیب و ترقی کے ہر میدان میں مغرب کو بھی مات دیا جا سکتا ہے۔ اس جیت کی یہی وہ اہمیت ہے جس کے پیش نظر سعودی عرب نے پورے ملک میں تعطیل کا اعلان کر دیا تھا تاکہ پورا ملک اس لمحہ کی اہمیت کو یاد رکھے اور اس کا جشن منائے۔ لیکن کسی بھی عرب ملک میں پہلی بار منعقد ہونے والے فیفا ورلڈ کپ میں کسی بھی مضبوط ترین ٹیم کو پہلی بار کسی عرب ٹیم کے ہاتھوں ملی شکست کی اہمیت صرف مقامی نہیں ہو سکتی تھی اور اسی لئے اس کی گونج پورے عالم عربی میں سنی گئی۔ خوشی کے نعرے پوری عرب دنیا میں سنے گئے۔ عرب لیگ سے لے کر عرب ممالک کے رہنماؤں نے اس پر اپنی خوشی اظہار کیا۔ مصر و اردن میں جشن کے ترانے گائے گئے۔ یہاں تک کہ یمن کے حوثی جو سعودی عرب کے خلاف 2015 سے سخت جنگ میں آمنے سامنے ہیں انہوں نے بھی ارجنٹائن پر سعودی فٹبال ٹیم کی فتح کا جشن منایا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر عرب قائدین صحیح سمت میں کام کریں تو اس قوم کو متحد کرنا کتنا آسان ہو سکتا ہے۔ لیکن اب تک چونکہ انہوں نے اس محاذ پر سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے اس لئے اتحاد کا فقدان ہے۔ جو کام اب تک عرب رہنما نہیں کر پائے وہ اسپورٹس کے ذریعہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہ اسپورٹس ہی کی بدولت ہمیں یہ دیکھنے کو ملا کہ قطر میں فیفا ورلڈ کپ کے افتتاحی پروگرام میں وہ عرب اور مسلم لیڈران بھی جمع ہوئے جنہوں نے برسوں سے ایک دوسرے کا چہرہ تک دیکھنا گوارہ نہیں کیا تھا۔ اس سلسلہ میں خاص طور سے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور ترکی کے صدر طیب اردگان کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ مصر کی صدارت سنبھالنے کے بعد السیسی کی یہ پہلی ملاقات اردگان سے ہوئی تھی اور مستقبل میں بہتر تعلقات کے لئے نقطۂ آغاز کے طور پر اس ملاقات کو دیکھا جا رہا ہے۔ اگر یہ دونوں مسلم ممالک اپنے تعلقات کو بہتر کر لیتے ہیں تو لیبیا کے انتشار کو دور کرنے اور وہاں کے مسائل کا پر امن سیاسی حل نکالنے میں بڑی مدد مل جائے گی۔ یہ عالم عربی کے قائدین کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو دور کرکے ایک متحد مسلم دنیا قائم کریں تاکہ ایک پرامن عالمی تہذیب کے ارتقاء میں وہ اپنا کردار مثبت اور مؤثر ڈھنگ سے ادا کر سکیں۔ ان کے باہمی اتحاد پر ہی شام و عراق و فلسطین کے مسائل کے حل کا راز بھی مضمر ہے۔ اسپورٹس کے ذریعہ انہیں یہ پیغام ملا ہے کہ اتحاد کے کتنے مواقع موجود ہیں۔ اب یہ عرب قائدین پر منحصر کرتا ہے کہ وہ اس سے کتنا سبق لے پاتے ہیں۔ بظاہر بہتر امکانات کے اشارے مل رہے ہیں۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS