دنیا دو انتہائوں کے درمیان پھنسی اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہے۔ ایک طرف کورونا وائرس پوری دنیا میں موت بانٹ رہاہے تو دوسری طرف تاریخ کاسب سے بڑا معاشی بحران پوری عالم انسانیت کیلئے چیلنج بنا ہوا ہے۔ ان دوانتہائوں کے درمیان پھنسا عام انسان اپنی سانس کی ڈور بچائے رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ جو کامیاب ہورہاہے وہ اپنی زندگی بچالے رہاہے اور جن کے مقدر میں ناکامی ہے وہ موت کو گلے لگارہے ہیں۔ سب سے برا حال ہندوستان کا ہے جہاں مہلک وبا کورونا وائرس ختم ہونے کا نام ہی نہیںلے رہی ہے۔یہ جان لیوا وبا ’وشو گرو‘ کا خواب دیکھ رہے ہندوستان میں ایک عجیب سے معاشی اور معاشرتی کرب اور ٹوٹ پھوٹ کو بھی جنم دے رہی ہے۔ مالیاتی خسارہ، ختم ہوتی قوت خرید،بے روزگاری، قرض، سود کی ادائیگی، بھکمری، قلت خوراک، بڑھتی مہنگائی یہ سب مل کر عام ہندوستانیوں کے ذہن و دل میں ایسی کشاکش پیدا کررہے ہیں جس سے فرارکی کوئی راہ نظر نہیں آرہی ہے۔ حساس ذہن اور دل اس صورتحال کو برداشت کرنے کے بجائے جان ہارجارہاہے۔ میڈیا میں متواتر ایسی دل فگار خبریں آرہی ہیں جن سے پہلے تاریخ واقف نہیں تھی۔
چند یوم قبل ہی 10ستمبر کو پوری دنیا کے ساتھ ہندوستان نے بھی خودکشی کی روک تھام کا عالمی دن منایا اور انسانی زندگی کوختم کرلینے کے اقدامات کی حوصلہ شکنی پر مشتمل پروگرام کیے۔ لیکن ان ہی چند دنوں میں ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ عوام میں زندگی کی جدوجہد سے فرار کا واحد راستہ فقط خودکشی کا ہی بچ رہاہے۔یہ صورتحال کورونا وبا کے دوران تیزی سے بڑھی ہے۔ لوگوں کی سماجی، معاشی، معاشرتی اور ذہنی صحت تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ روزگار چھن جانے یا اس کے خوف سے سیکڑوں افراد نے خود ہی اپنی جانوں کو ختم کردیا ہے۔
تازہ اطلاع کے مطابق راجستھان میں ایک ہی خاندان کے چار افراد نے خودکشی کرلی۔ ان میں ان کے والدین اور بچے شامل ہیں۔ اس اجتماعی خودکشی کی وجہ مالی تنگی بتائی گئی ہے۔ کہا جارہاہے کہ جیولری کا کاروباکرنے والا یہ خاندان کورونا وبا کی وجہ سے ہوئے لاک ڈائون اور معاشی ابتری کے سبب قرض سے پریشان تھا۔ قرض خواہوں اور سود مافیا نے ان کا جینا حرام کردیا تھا۔ کچھ دنوں پہلے دہلی کے چاندنی چوک میں جیولری کے ہی کاروبار سے وابستہ دو بھائیوں نے پھانسی لگالی تھی۔ یہ دونوں بھائی سو سائیڈ نوٹ میں یہ لکھ کر مرے تھے کہ خراب مالی حالت کی وجہ سے خودکشی کررہے ہیں۔لدھیانہ میں زیورات کے ہی ایک بڑے تاجر نے بڑھتے قرض کے بوجھ اورقرض خواہوں کے دبائو سے نجات حاصل کرنے کیلئے اپنے سر میں گولی مار کر خودکشی کرلی۔ چند دنوں پہلے کرناٹک سے بھی اسی نوعیت کی ایک خبر آئی تھی جس میں ایک ہی خاندان کے تین افراد نے اس خوف سے خودکوہلاک کرلیا کہ ان کی نوکری چلی جائے گی۔کرناٹک کے بنگلور سے ہی جولائی کے آخری دن کیفے کافی ڈے (سی سی ڈی) کے بانی وی جی سدھارتھ کی خودکشی کی خبربھی آچکی ہے۔اپنی موت سے دو دن قبل سدھارتھ نے 1600 کروڑ روپے قرض لینے کی کوشش کی تھی۔ جس میں انہیں ناکامی ہوئی اور وہ گھر سے نکل پڑے بعد میں ایک ندی کے کنارے سے ان کی لاش برآمد کی گئی۔کسانوں کی خودکشی کی خبریں تو ہم کم و بیش روزانہ ہی پڑھتے رہتے ہیں۔ قومی راجدھانی خطہ کے نوئیڈا میں مارچ سے لے کر 5ستمبر کے درمیان 165لوگوں نے خودکشی کی۔ اس دوران کورونا سے صرف47افراد کی جان گئی ہے۔ان مرنے والوں میں سے زیادہ تر لوگ مالی تنگی سے پریشان تھے۔
کورونا کے ساتھ آنے والی معاشی ابتری، کساد بازاری، بے روزگاری، قرض اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے بہت سے لوگ پہلے افسردگی کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر اپنے ہاتھوں اپنی جان ختم کرلیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ صورتحال صرف ہندوستان میں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریبا ً8 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیںیعنی ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خود کوہلاک کرلیتا ہے۔ لیکن ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہندوستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ سات مہینوں میں بڑھتی بے روزگاری اور معاشی خستگی کی وجہ سے خودکشی کے ان واقعات میں تیزی آئی ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2000 سے 2015 کے درمیان 1,54,751بے روزگار افراد نے خودکشی کی تھی۔ رواں سال کا سرکاری ڈیٹا اب تک جاری نہیں کیاگیا ہے لیکن میڈیا اور دوسرے سروے رپورٹوںسے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا اوراس کے ساتھ آنے والی معاشی ابتری، بے روزگاری اور بھکمری نے خو دکشی کے واقعات کو بے لگام کردیا ہے۔
ہندوستان کے اس معاشرتی کرب اور ٹوٹ پھوٹ کا واحد سبب معاشی تباہی اور تنگ حالی ہے جس میں بے روزگاری اور قرض اپنا بھر پورکردار ادا کررہا ہے۔ ملک کو ان دل خراش واقعات سے بچانے کیلئے زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر بے روزگاری کے عفریت پر عملاً قابو پانے کی شدید ضرورت ہے۔
[email protected]
بے روزگاروں کی خودکشی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS