بے روزگاری کا طوفان

0

ملک کا  معاشی نظام اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ افراط زر میں اضافہ، برآمدات میں کمی، بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ آسیب بن کر اہل وطن کو ڈراہی رہے تھے کہ اس درمیان خبرآگئی کہ ملک کی مجموعی گھریلو پیدوارمنفی 24تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن حکمرانوں نے اسے عالمی منظر نامہ میں رکھ کردیکھنا شروع کیا اور پیٹھ تھپتھپانے لگے کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں صورتحال اس سے بھی ابتر ہے۔ ابھی نااہلی کا یہ رقص جنوںجاری ہی تھاکہ سینٹر فارمانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) نے ملکی معیشت کا ایک اور معاملہ اجاگر کرکے حکمرانوں اور پالیسی کی نااہلی پر چڑھائی جارہی قلعی اتار دی ہے۔
سی ایم آئی ای کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ اپریل اور اگست کے درمیان 2.1 کروڑ تنخواہ پانے والے افراد اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو مستقل تنخواہوں پر کام کرتے تھے ان کا روزگار ختم ہوگیا ہے۔ان افراد میں صنعتی کارکنوں سے لے کر مختلف دفاتر میں کام کرنے والے سفید پوش ملازمین سبھی شامل ہیں۔ صرف دو مہینے جولائی اور اگست میں ختم ہونے والی تنخواہ دار ملازمتوں کی تعداد 81لاکھ ہے۔جولائی میں یہ تعداد 48لاکھ تھی اور اگست کے مہینہ میں روزگار کھونے والے  33لاکھ افراد کا مزید اضافہ ہوگیا۔اس سے قبل اگست میں، سی ایم آئی ای نے اطلاع دی تھی کہ اپریل اور جولائی کے درمیان 1.89 کروڑ افراد اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
جو رپورٹ حکومت کو دینی چاہیے تھی وہ رپورٹ عوام کو سینٹر برائے مانیٹرنگ آف اکنامی(سی ایم آئی ای)دے رہا ہے۔ ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والی حکومت میں ہر ماہ لاکھوں لاکھ کی تعداد میں ملازمتوں کا ختم ہوجانا پالیسی کی صریح ناکامی ہی کہی جائے گی۔اگر ہم سی ایم آئی ای کے اعدادوشمار پر نگاہ ڈالیں تو گزشتہ چند مہینوں میں ایسے تمام شعبوں سے ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں جنہیں اگر حکمت عملی کے ساتھ سنبھالا جاتا تو ملک میں بڑھتی بے روزگاری پر قابو پایاجاسکتاتھا۔ ان شعبوں میں کاٹج، مائیکرو اور اسمال انڈسٹریز کی اکائیاں سرفہرست ہیں۔ وبائی بحران کے درمیانی مہینوں میں حکومت نے ان شعبوں کو بچانے کیلئے ایسے پیکیج کا اعلان کیاجو ان شعبوں کے کسی کام نہیں آسکیں اور عملاً ان شعبوں پراس پیکیج کا کوئی اثرہی نہیں پڑا۔
بے ایمانی کے اس دور میں حکومت اب جو اقدامات اٹھا رہی ہے، ان کی بابت ریزروبینک آف انڈیا کے سابق گورنر ماہر معاشیات رگھورام راجن کا کہنا ہے کہ موجودہ اعداد و شمار سے ہم سب کو خوف زدہ ہوجانا چاہیے۔ حکومت اور بیوروکریٹس کو اس سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔رگھورام راجن کا ماننا ہے کہ معیشت کا یہ چیلنج صرف کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو ٹھیک کرنے کا چیلنج نہیں ہے بلکہ پچھلے 3-4برسوں میں پیدا ہونے والے معاشی مسائل کو بھی دور کرنا ہے۔ ہندوستانی معیشت کو امریکہ اور اٹلی سے بھی زیادہ نقصان ہوا ہے۔ یہ دونوں ملک کورونا وائرس وبا سے سب سے زیادہ متاثر رہے۔ جس طرح سے ہندوستان میں صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے، جب تک کورونا قابو میں ہوگا، معیشت تباہ ہوجائے گی۔رگھورام راجن کاکہنا ہے کہ آنے والے وقت میں راحت کے بغیر لوگ کھانا چھوڑ دیں گے، وہ بچوں کو اسکول سے نکال کرکام کرنے یا بھیک مانگنے کیلئے بھیج دیں گے۔چھوٹی اور درمیانی کمپنیاں اپنے ملازمین کو تنخواہ نہیں دے پائیں گی، ان کا قرض بڑھتا جائے گا اور آخر میں وہ بند ہو جائیں گی۔ سی ایم آئی ای نے گزشتہ چند مہینوں کا جو منظرنامہ پیش کیا ہے ،وہ رگھو رام راجن کے خدشات کو درست ثابت کررہاہے۔
ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح جولائی کے مہینہ میں 7.4فی صد تھی جو اگست میں بڑھ کر8.35فی صد ہوگئی۔ سی ایم آئی ای ملک کی معیشت پر نگاہ رکھنے والا ایسا نجی ادارہ ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ملک میں روزگار کی نبض ٹٹولتا ہے اوراسے ماہانہ رپورٹ کے طور پر جاری کرتا ہے۔ تازہ رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ملک کے شہری علاقوں میں بے روزگاری کاتناسب بڑھا ہے۔ جولائی کے مہینہ میں یہ شرح 9.37فیصد تھی جواگست میں بڑھ کر 9.83فیصد ہوگئی۔سی ایم آئی ای کے مطابق اگر ملکی معیشت کا گراف اسی طرح نیچے گرتا رہا تو تنخواہ والی ملازمتوں پر اس کااور خطرناک اثر پڑے گا۔ملک میں کل وضع روزگاروں میں 21-22فیصد حصہ تنخواہ والی ملازمتوں کا ہوتا ہے۔اکثر دیکھاگیا ہے کہ تنخواہ والی ملازمتیں کچھ حد تک مستحکم سمجھی جاتی ہیں مگر یہ ملازمت ایک بار اگر چلی گئی تو فردکے لیے اسے دوبارہ حاصل کرنا ناممکن کی حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔ اس صورتحال کوذہن میں رکھ کر سی ایم آئی ای کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جائے توجو منظر نامہ سامنے ابھرتا ہے وہ انتہائی حد تک خوفناک ہے۔
بے روزگاری کے اس دیوہیکل طوفان کوجارحانہ قوم پرستی کی آڑ میں چھپایا نہیں جاسکتا ہے۔اس لیے بہتر یہ ہوگا کہ معاملہ کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے حکومت اس جانب بھرپور توجہ دے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS