اس وقت سب سے زیادہ کوئی معاملہ سرکار اور عوام میں زیر بحث ہے تو وہ اسکولوں کو کھولنے کا معاملہ ہے، دراصل اسکول کے بچوں کی پوری تعلیم کلاسوں ،ٹیوشن اور کوچنگ پر منحصر ہوتی ہے اور وہ بند ہیں۔ آن لائن تعلیم سے ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ کیونکہ تمام اسکولی بچوں کے پاس آن لائن کلاس کے لیے موبائل ، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور تیز انٹر نیٹ یا وائی فائی کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں، بجلی کا بھی مسئلہ رہتاہے پھر پرائمری کے بچوں کے لیے آن لائن تعلیم حاصل کرنا اسے سمجھنا اور یاد کرنا بہت مشکل ہے لیکن کورونا کے دور میں اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں ہے۔
پچھلے 5 ماہ سے تعلیمی ادارے بند ہونے سے بچوں کی تعلیم کا کافی نقصان ہوا اوران کا بہت وقت ضائع ہوچکا ہے۔ تعلیم میں جو دلچسپی، لگن اورمحنت درکارہوتی ہے، ان میں کمی آگئی ہے۔ کورونا سے پہلے تعلیم کا جو ماحول تھا اور جس طرح کی تعلیمی سرگرمیاں نظر آرہی تھیں، وہ مفقود ہیں۔ چونکہ نوجوان غفلت ولاپروائی میں کورونا کے زیادہ شکار ہوتے ہیں اور بچوں میں اس کا خطر ہ زیادہ رہتا ہے۔ اسی لیے تعلیمی اداروں کو ابھی تک بند رکھا گیا ہے۔ پچھلے تعلیمی سیشن میں بہت سے اسکولوں کے سالانہ امتحانات نہیں ہوسکے تھے اور ملک بھر میں لاک ڈائون نافذ کردیا گیا تو پروموشن دے کرآن لائن تعلیم ہونے لگی اور اب ششماہی امتحانات بھی شروع ہوگئے ۔ ایسے میں ملک بھر کی بیشتر سرکاروں نے ذہن بنالیا ہے اور فیصلہ بھی کرلیا ہے کہ 21ستمبر سے نویں تا 12ویں تعلیم کے لیے اسکولوں کو کھولا جائے۔ حالانکہ تجربہ بتاتا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی اسکول کھولے گئے بڑی تعداد میں بچے کورونا کے انفیکشن کا شکار ہوئے۔ بہر حال دہلی سرکار نے 5؍ اکتوبر تک راجدھانی کے اسکولوں کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جس کورونا کے پھیلائو کے نام پر تعلیمی اداروں کو بند کیا گیا تھا، اس میں اب بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ پھر بھی سرکار اسکولوں کو کھولنے کی تیاری کررہی ہے۔ گائیڈ لائن جاری کی جاچکی ہے ۔ جہاں تک بچوں کے والدین کا تعلق ہے، وہ مخمصے کا شکار ہیں۔ وہ بچوں کی اسکولی تعلیم اور کورونا سے ان کی زندگی کو لاحق خطرے میں سے کسی ایک کو چننے کا فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں۔ سرکاریہ کہہ کر ایک طرح سے اپنا دامن بچارہی ہے کہ اسکول گائیڈ لائن کے مطابق کھلیں گے اور چلیں گے، کم بچے اسکول آئیں گے، ا ن کی حاضری رضاکارانہ اور اختیاری ہوگی لیکن جو بچے اسکول آئیں گے وہ والدین کے راضی نامہ کے ساتھ آئیں گے۔ یہی وہ پوائنٹ ہے جو والدین کے لیے پریشان کن بنا ہوا ہے۔ راضی نامہ کا مطلب بچوں کے انفیکشن کا شکار ہونے پر ذمہ داروہی ہوں گے۔ ایسے میںسوال یہ پیداہوتا ہے کہ کون پیشگی ذمہ داری قبول کرکے اپنے بچوں کو خطرے میں ڈالے گا؟بہر حال دیکھنے والی بات ہوگی کہ اسکولوں کو کھولنے کا فیصلہ کتنا کامیاب و مفید یا نقصان دہ ثابت ہوتاہے۔
[email protected]
اسکولوں کو کھولنے کا معاملہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS