امریکہکے جمہوری نظام کی تاریخ میں 6 جنوری 2021 کا دن ایک سیاہ دن تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کوئی پہلے امریکی صدر نہیں تھے جو مسلسل دوسری بار صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے، البتہ وہ پہلے ایسے امریکی صدر بن گئے ہیں جن کے لیے ناکامی برداشت کرنا ناممکن سا ہو گیا۔ وہ اگر ناکامی برداشت کر لیتے، اگر وہ اگلے چار سال تک جو بائیڈن کی پالیسیوں پر نظر رکھتے، اگر وہ 2024 میں صدارتی امیدوار کے طور پر خود کو پیش کرنے کی تیاری کرتے رہتے تو اپنے حامیوں سے یہ کہتے کہ تحمل سے کام لیں، صبر کا مظاہرہ کریں، اپنے ملک امریکہ کی خاطر، امریکہ کے جمہوری نظام کی خاطر اقتدار کی منتقلی آسانی سے ہونے دیں مگر ڈونالڈ ٹرمپ اپنے حامیوں کو صبر کی تلقین کیا دیتے جب وہ خود ہی تحمل نہیں دکھا سکے۔ ٹرمپ شکست برداشت نہیں کر سکے۔ وہ امریکہ کے مستحکم جمہوری نظام کے آگے اسی طرح بے بس نظر آئے جیسے ان کے فیصلوں کے آگے فلسطینی بے بس نظر آ رہے تھے، اس لیے امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی بے بسی ایسی نہیں جو سمجھی نہ جا سکے، البتہ امریکی لیڈروں، بالخصوص ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈروں کو خدشہ اس بات کا ہے کہ کہیں ٹرمپ کے حامی جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب میں اسی غیر جمہوری انداز کا مظاہرہ نہ کریں جیسے انہوں نے 6 جنوری 2021 کو کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل میں گھس کر کیا تھا۔
کیپٹل ہل میں ٹرمپ حامیوں کی توڑ پھوڑ کو دیکھتے ہوئے بائیڈن کی حلف برادری کی تقریب میں نظم و نسق کے حوالے سے خدشات پیدا ہونا غیر فطری نہیں ہیں۔ ڈیموکریٹس کوئی بھول نہیں کرنا چاہتے، چنانچہ سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ چک شومر نے باضابطہ متنبہ کیا ہے کہ ’نو منتخب صدر جو بائیڈن کی 20 جنوری کو ہونے والی حلف برداری کی تقریب میں ہنگامہ آرائی کا خدشہ ہے۔‘ چک شومر کا کہنا ہے کہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر اے- ورے سے 9 جنوری کو ان کی بات ہوئی ہے اور یہ بات زور دے کر انہوں نے کہی ہے کہ وہ ان لوگوں پر نظر رکھیں جنہوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کیا تھا تاکہ ممکنہ حملوں کو روکا جا سکے۔ چک شومر کی اس بات سے عدم اتفاق کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ ’انتہا پسندوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی کے خطرات اب تک موجود ہیں اور آئندہ چند ہفتے امریکہ کی جمہوریت کے لیے مشکل ہیں۔ ‘ مگر حلف برداری کی تقریب کی تیاری اس طرح کی جا رہی ہے کہ کوئی کمی نہ رہے۔ شرپسند لوگوں کو شرانگیزی کے مظاہرے کا موقع نہ ملے۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن کی میئر موریل باو زر نے ہوم لینڈ سیکورٹی کے قائم مقام چیف چڈ وولف کو ایک خط لکھ کر ان سے یہ کہا ہے کہ وہ سخت سیکورٹی ہدایات کی توسیع 24 جنوری تک کر دیں۔ ادھر تیاری یہ بھی کی جا رہی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کی جمہوری تاریخ کی ایک عبرتناک مثال بنا دی جائے، چنانچہ ڈیموکریٹک پارٹی نے کیپٹل ہل پر حملے اور توڑ پھوڑ کا ذمہ دار صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ٹھہراتے ہوئے ان کے مواخذے کی جدوجہد تیز کر دی ہے۔ کل اس سلسلے میں قرارداد پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے اراکین ایوان نمائندگان نے اشارہ دیا ہے کہ وہ 11 جنوری کو ایوان میں صدر ٹرمپ کے خلاف الزامات کی فہرست پیش کریں گے۔ کیلی فورنیا سے رکن کانگریس ٹیڈ لیو نے صدر امریکہ کے خلاف الزامات کی فہرست تیار کی ہے۔ ٹیڈلیو نے 8 جنوری کو دعویٰ کیا تھا کہ مواخذے کے سلسلے میں انہیں 180 اراکین حمایت دینے کے لیے تیار ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبران کانگریس نائب امریکی صدر مائیک پینس سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ آئین کی 25 ویں ترمیم نافذ کریں تاکہ ڈونالڈ ٹرمپ کو فوراً ہٹایا جا سکے مگر تادم تحریر پینس کی طرف سے ’ہاں‘ یا ’نا‘ میں جواب نہیں آیا ہے، ان کے ساتھیوں کے حوالے سے آنے والی خبر کے مطابق، 25 ویں ترمیم نافذ کرنے کا پینس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے کسی لیڈر کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مواخذے کی حمایت کی خبر نہیں ہے، اس لیے اس پر شبہ برقرار ہے کہ ری پبلکن اکثریتی سینیٹ اس مواخذے کی اجازت دے دے گی۔
دراصل ری پبلکن پارٹی کے لیڈران امریکہ کے مستقبل کے ساتھ اپنے مستقبل کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہتے۔ اقتدار کی منتقلی سے صرف چند دن پہلے مواخذے کی اجازت دینے سے ٹرمپ کا نقصان تو ہوگا مگر نقصان سے ری پبلکن پارٹی بھی بچ نہیں سکے گی اور اس پارٹی کے لیڈروں کا اپنے مفاد کو بالکل ہی نظرانداز کر دینا مشکل ہے۔
[email protected]
خدشہ ختم نہیں ہوا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS