دلی کی فضا بدلنے لگی ہے۔ خوف اس بات کا ستانے لگا ہے کہ اچھے دن کہیں گزر نہ جائیں اور پھر انہیں طرح کے دنوں کا سامنا کرنا پڑے جیسے ہر برس ان مہینوں میں سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اس بار فضائی آلود گی لوگوں کے لیے زیادہ باعث پریشانی ہوگی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے گاڑیاں برائے نام چلیں، طیاروں کا اڑنا بھی بڑی حد تک نہیں ہوا۔ اَن لاک کی شروعات ہونے کے بعد سے دھیرے دھیرے گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن اتنی گاڑیاں آج بھی نہیں چل رہی ہیں جتنی کورونا وبا پھوٹنے سے پہلے چلا کرتی تھیں، کیونکہ لوگ زیادہ سے زیادہ وقت گھروں پر ہی گزارنا چاہتے ہیں، باہر بحالت مجبوری ہی نکلتے ہیں۔ گھروں میں ان کے لیے اب تک رہنا راحت افزا رہا ہے لیکن فضا میں آلودگی کے اضافے سے ان کے لیے گھروں میں رہنا بھی دشوار ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں ان کے لیے پریشانی کی بات یہ ہوگی کہ جائیں کہاں۔ پھر یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے کہ کیا اس بار پرالی نہ جلائی جاتی تو کوئی حرج تھا یا پرالی کو ٹھکانے لگانے کے کچھ اُپائے نہیں کیے جا سکتے تھے؟
پرالی جلانے سے روکنے اور دارالحکومت کو فضائی آلودگی سے بچائے رکھنے کے حوالے سے دلی کے نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا کا کہنا ہے کہ ’دلی حکومت مسلسل پورے سال کام کر رہی ہے تاکہ دلی کی آلودگی کم کی جا سکے لیکن پرالی کی آلودگی صرف دلی کی نہیں، پورے شمالی ہند کا مسئلہ ہے۔ افسوس کی بات، مرکزی حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ پورے سال ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہی۔‘ رپورٹ کے مطابق، ہریانہ، پنجاب اور ہندوستان سے متصل پاکستان کے علاقوں میں پرالی جلانے کی وجہ سے بڑی تیزی سے دلی کی فضا میں آلودگی گھلتی جا رہی ہے۔ راجدھانی میں صبح ہوا کا معیار اے کیو آئی یعنی ایئر کوالٹی انڈیکس 304تھا اور اسے ’بے حد خراب‘ درجہ مانا جاتا ہے جبکہ کل یعنی پیر کو اس شہر کا اے کیو آئی 261 تھا اور اسی پر اس تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ سال رواں کے فروری کے بعد سے اب تک کی سب سے خراب صورت حال ہے جبکہ اب تو کل سے آج میں ہی آلودگی میں 15 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے اور ابھی اس بات کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ مزید اضافہ نہیں ہوگا۔ پاکستان سے متصل علاقوں میں پرالی جلانا رکے گا یا نہیں، اس پر تو بات ہی کرنی فضول ہے مگر ہریانہ اور پنجاب تو ہمارے ملک کی ریاستیں ہیں۔ ان ریاستوں کی حکومتوں کو تو یہ خیال ہونا چاہیے کہ پرالی جلانے سے ہر برس دلی اور اطراف میں فضائی آلودگی میں اچانک اضافہ ہو جاتا ہے، یہ اضافہ ان لوگوں کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے جو سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایک طرف کورونا کا خدشہ ہو اور دوسری طرف فضائی آلودگی تو پھر ان لوگوں کو کتنی راحت ملے گی؟ بے حد اہم سوال یہ ہے کہ پرالی جلنے کی شروعات ہو جانے کے بعد ہی دلی اور اطراف کی فضائی آلودگی کا خیال کیوں آتا ہے؟ پرالی کو ٹھکانے لگانے کے لیے سال بھر مہم کیوں نہیں چلائی جاتی؟ جب تک پنجاب اور ہریانہ کی حکومتیں اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دیں گی، دلی حکومت کی فضائی آلودگی کو روکنے کی کوشش پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتی۔
دلی کے ایئر کوالٹی انڈیکس کو عام طور پر 101 سے 200 کے درمیان ’معتدل‘ سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر جنوری سے ستمبر کے دوران یہاں یہی ہوا کی کوالٹی رہتی ہے مگر اس کے بعد فضائی آلودگی میں ایک دم سے اضافہ ہونا شروع ہوتا ہے ۔ دلی کا ایئر کوالٹی انڈیکس301 سے 400 کے درمیان آ جاتا ہے جو ’بے حد خراب‘ سمجھا جاتا ہے جبکہ 401سے 500 کے درمیان ہو جانے پر ’سنگین‘ اور اس سے زیادہ ہو جانے پر ’خطرناک‘ سمجھا جاتا ہے۔ فی الوقت دلی کی فضائی آلودگی ’سنگین‘ ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس پر فوری اور سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب اور ہریانہ کی حکومتوں کو دلی اور اطراف کی ریاستوں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ فضائی آلودگی کو ہلکے پن سے لینا کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہوگا، کیونکہ فضائی آلودگی بے حد مہلک ہے۔ ہر برس اس کی وجہ سے 70 لاکھ لوگوں کو جانیں گنوانی پڑتی ہیں۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے اشیا کے خراب ہونے یا ان پر منفی اثرات پڑنے سے دنیا کو تقریباً 5ٹریلین ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے، چنانچہ فضائی آلودگی کو روکنا انسانوں کی صحت کے ساتھ اقتصادیات کے لیے بھی ضروری ہے۔
[email protected]
فضا بدلنے لگی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS