اویغور مسلمانوں پر چینی حکومت کے مظالم عالمی برادری سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ 10 لاکھ اویغوروں کو حراست میں رکھنے کی خبر دنیا کے لیے نئی نہیں رہی۔ سنکیانگ میں اویغوروں کی ذہنی تبدیلی کے نام پر جو کیمپ چلائے جاتے ہیں، ان سے بھی طاقتور ملکوں کے لیڈران ناواقف نہیں ہیں مگر اویغوروں کے لیے ان کی ہمدردی کا پیمانہ کبھی کبھی ہی چھلکتا ہے اور اس کے چھلکنے کی وجہ ہوتی ہے، اس لیے اس طرح کی خبر کا آنا باعث حیرت نہیں کہ ’سنکیانگ سے ایکسپورٹ ہونے والی اشیا پر امریکہ پابندی عائد کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، کیونکہ ایسا الزام ہے کہ یہ پروڈکٹس بندھوا مزدوروں سے بنوائے جاتے ہیں۔ جن اشیا پر پابندی عائد کرنے کی تجویز ہے، ان میں سوتی کپڑوں اور ٹماٹر جیسی چیزیں شامل ہیںجو چین سے ایکسپورٹ ہونے والی اہم اشیا میں شامل ہیں۔‘
امریکہ اگر واقعی سنکیانگ کے علاقے سے ایکسپورٹ ہونے والی چینی اشیا پر پابندی عائد کرتا ہے تو اس سے اس کی ’انسانیت نوازی‘ ابھر کر سامنے آئے گی اور اس کا فائدہ امریکہ اور ٹرمپ دونوں کو ہوگا۔ امریکہ کو فائدہ یہ ہوگا کہ اویغوروں سے ہمدردی کے نام پر چین کو کچھ لگام دینے میں اسے کامیابی ملے گی، یہ چین سے اس کے ٹریڈ وار میں ایک اہم قدم ہوگا۔ اس کے منفی اثرات چین پر پڑیں گے، کیونکہ اویغوروں کے لیے دنیا بھر میں ہمدردی پائی جاتی ہے، بالخصوص وہ لوگ اویغوروں پر مظالم کے خلاف کھل کر احتجاج کرتے رہے ہیں جو دنیا کے سبھی ایشوز کو مفاد کی عینک سے نہیں دیکھتے اور انسان دوستی کا اظہار کرتے رہنے کو ہی اپنے انسان ہونے کا ثبوت مانتے ہیں۔ اویغوروں سے ہمدردی کے اظہار کے لیے چینی اشیا کی ایکسپورٹ پر پابندی عائد کرکے ٹرمپ اپنے ملک کے مسلمانوں کو یہ اشارہ دے پائیں گے کہ وہ مظلوم مسلمانوں کے مسیحا ہیں، دوبارہ صدر منتخب کرنے میں معاونت کرکے امریکی مسلمان انہیں مسلمانوں کی مسیحائی کا مزید موقع دے سکتے ہیں، چنانچہ اویغور مسلمانوں سے امریکی حکومت کی ہمدری کے اظہار کو انسانیت کے دائرے تک محدود کرکے دیکھنا مناسب نہیں، اسے عالمی سیاست اور امریکہ کے صدارتی انتخابات سے وابستہ کرکے بھی دیکھا جانا چاہیے۔
چینی حکومت کوئی آج سے اویغوروں کے خلاف مظالم نہیں ڈھا رہی ہے، وہ برسوں سے انہیں ستا رہی ہے۔ 9/11 سے پہلے چینی حکومت اویغوروں کو ’علیحدگی پسند‘ کہا کرتی تھی جبکہ 9/11 کے بعد وہ انہیں ’دہشت گرد ‘ کہنے لگی تاکہ دنیا ان سے نفرت کرے اور وہ ان کے ساتھ جیسا چاہے ، سلوک کر سکے۔ 8تا 24 اگست 2008 کو بیجنگ میں منعقد ہوئے ’سمر اولمپکس‘ سے پہلے تو اس نے اویغوروں کے خلاف باضابطہ مہم سی چلائی تھی، بار بار اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اویغوروں کی طرف سے دہشت گردانہ حملے ہو سکتے ہیں مگر اویغوروں نے مذموم منصوبے کا اندازہ لگاتے ہوئے جب یہ کہنا شروع کیا کہ ایسا انہیں عالمی سطح پر بدنام کرنے کے لیے چینی حکومت کر رہی ہے اور عالمی برادری نے چینی حکومت کے پروپگنڈے پر کوئی توجہ نہیں دی تو اس کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ یہ موقع تھا یہ سمجھ لینے کا کہ چینی حکومت دہشت گردی مخالف جنگ کا فائدہ اٹھاکر ایک طرف اویغوروں کو کچل ڈالنا چاہتی ہے تو دوسری جانب امریکہ کو بدنام کرنا چاہتی ہے کہ اس کی دہشت مخالف جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کو ٹارچر کیا جا رہا ہے اور ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے، کیونکہ دہشت گردی کی کوئی تعریف نہیں۔ یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ چین نے اویغوروں کو ’دہشت گرد‘ کی طرح پیش کرنا شروع کیا تھا تو امریکہ نے اسے بھرپور جواب کیوں نہیں دیا؟ چین سے یہ کہا کیوں نہیں کہ ’دہشت گرد‘ کا متبادل نہیں ہے ’علیحدگی پسند‘اور پھر سارے اویغور علیحدگی پسند بھی نہیں۔
امریکہ کو چینی اشیا پر پابندی عائد کرنی چاہیے، کیونکہ چین کی طاقت میں اضافہ اس کی توسیع پسندی میں اضافہ ہوگا اور یہ عالمی امن کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔ چین کو وقت رہتے اس کے دائرے میں سمیٹ دینے میں ہی دنیا کی بھلائی ہے مگر یہ کام اویغوروں کے نام پر نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس سے اویغوروں پر چین کے مظالم میں اضافہ ہوگا، کمی نہیں آئے گی۔ اگر امریکہ کو لگتا ہے کہ اویغوروں کے نام پر چینی اشیا پر پابندی عائد کرنے کا مثبت اثر اویغوروں پر پڑے گا تو اسے عالمی برادری کو یہ بتانا چاہیے کہ یہ اثر کیسے پڑے گا؟
[email protected]
ہمدردی اویغوروں سے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS