ترنمول کانگریس میں بھگدڑ

0

 دو ہزار گیارہسے مغربی بنگال میں حکمراں جماعت ترنمول کانگریس آج ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہے۔ پارٹی پر سپریمو ممتا بنرجی کی گرفت روز بروز کمزور ہورہی ہے۔ اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخاب سے قبل ترنمول کانگریس کے بڑے لیڈران اور پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب جیتنے والے ایم ایل اے ایک ایک کرکے پارٹی چھوڑرہے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو باقاعدہ بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں اور کچھ مناسب وقت کے انتظار میں ہیں۔ ریاستی وزیر ٹرانسپورٹ اور پارٹی میں پہلی صف کے بڑے لیڈر شوبھیندو ادھیکاری پارٹی سے تو پہلے ہی کنارہ کش ہوگئے تھے، اب انہوں نے وزارت سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ قیاس کیاجارہا ہے کہ ہفتہ عشرہ میں وہ بھی بی جے پی میں شامل ہوجائیں گے یا اپنی نئی پار ٹی بناسکتے ہیں۔شمالی بنگال میں کوچ بہار کے ایم ایل اے مہر گوسوامی پہلے ہی استعفیٰ دے چکے تھے اور اب انہوں نے جمعہ کو دہلی میں جاکر باقاعدہ بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔جنوبی بنگال میں ریاستی وزیر راجیو بنرجی کے استعفیٰ کی قیاس آرائیاں بھی ہیں۔ ہگلی کے سینگور میں جہاںسے پارٹی کو عروج حاصل ہواتھا وہاں بھی پارٹی لیڈررابندر گھوش اور بیچا رام منا اپنی قیادت سے ناخوش ہیں اور بغاوت کی راہ پر دور تک نکل آئے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں قیاس ہے کہ یہ دونوں بھی جلد ہی پارٹی چھوڑ دیں گے۔اس سے قبل نصف درجن سے زیادہ ترنمول ایم ایل اے بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں۔پہلے پہل توان لیڈروں کو منانے کیلئے پارٹی کے مشیر پرشانت المعروف بہ ’پی کے‘ کی ہمراہی میں ایم پی سوگت رائے،سدیپ بندوپادھیائے اور فرہاد حکیم کو الگ الگ بھیجا گیا، طویل مذاکرات ہوئے لیکن باغی لیڈروں کی پارٹی قیادت سے ناراضگی کا کوئی حل نہیں نکل پایااور دھیرے دھیرے پارٹی کی زمین کھسکنے لگی ہے۔
ترنمول کانگریس پر پہلے ہی ناردااسٹنگ آپریشن اور شاردا گھوٹالہ کا سایہ تھا، اب مچی بھگدڑ نے پارٹی کو ایسے بھنور میں لا ڈالاہے جہاں سے نکلنے کی کوئی راہ پارٹی قیادت کے سامنے نہیں ہے۔ترنمول کانگریس کو سب سے بڑا دھچکا شوبھیندو ادھیکاری نے دیا ہے اور یہ ہونا ہی تھا۔ اس سلسلے میں قیاس آرائی اسی وقت شرو ع ہوگئی تھی جب مائونوازوں کے گڑھ سمجھے جانے والے بنگال کے تین اضلاع بانکوڑہ، پرولیا اور مدنی پور پر مشتمل جنگل محل علاقہ میں پارٹی کی کمان لال گڑھ کے ’لال‘ چھتر دھر مہتو کو دی گئی تھی۔ اسی وقت سے شوبھیندو ادھیکاری کے تیور بدلنے لگے تھے۔شوبھیندو اس علاقہ میں پارٹی کے بنیاد گزاروں میں سے ہیں۔ 2007 میں مدنی پور کے نندی گرام میں تحویل اراضی کے خلاف بھومی اچھید پرتی رودھ کمیٹی کے بینر تلے تحریک کے پس پشت شوبھیندو ادھیکاری ہی تھے۔34سالہ بایاں محاذ کی حکومت میں ہونے والی اس تحریک کے دوران پولیس فائرنگ میں ایک درجن سے زیادہ کسان ہلاک ہوکر ترنمول کانگریس کی حکومت سازی کی راہ ہموار کرگئے تھے۔اس کا سارا سہرا شوبھیندو ادھیکاری کے سر ہی تھا۔ ترنمول کی حکومت بننے کے بعدممتابنرجی نے جنگل محل علاقہ کی کمان ادھیکاری کو سونپ دی تھی۔ویسے بھی اس خطہ میں ادھیکاری خاندان کاطوطی بولتا ہے۔شوبھیندو کے والد سسر ادھیکاری مشرقی مدنی کے کانتھی سے کانگریس کے ایم ایل اے تھے۔ ترنمول کانگریس بننے کے بعد انہوں نے بھی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور گزشتہ تین بار سے وہ اس علاقہ سے ایم پی ہیں۔تملوک اور کانتھی انتخابی حلقوں سے شوبھیندو ادھیکاری بھی مسلسل کامیاب ہوتے رہے ہیں۔تحویل اراضی تحریک سے اب تک شوبھیندو ادھیکاری ان تینوں اضلاع ایک قدرآور لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیںاور جنگل محل کے65اسمبلی حلقوں پر ان کا اثر ہے۔ممتاکی مقبولیت کا استعمال کیے بغیر وہ ان حلقوں سے ترنمول امیدواروں کو کامیاب بناتے رہے ہیں۔ لیکن پارٹی میں پی کے اور ممتابنرجی کے بھتیجہ ابھیشیک بنرجی کے بڑھتے عمل دخل اوراپنے کاموں میں ان کی دخل اندازی سے شوبھیندو ناخوش رہنے لگے۔چھتر دھر مہتو کو اس علاقہ کی کمان ملنے کے بعد توگویا پانی سر سے اونچا ہوگیا اورا نہوں نے خود کو پارٹی سرگرمیوں سے الگ کرلیااور آج وزارت سے بھی استعفیٰ دے چکے ہیں۔شوبھیندو کے استعفیٰ کو بھارتیہ جنتاپارٹی اور کانگریس، ترنمول کانگریس کے ’ خاتمہ کا آغاز‘ سے تعبیر کررہی ہیں۔لیکن پارٹی کے دوسرے رہنما اب بھی پرامید ہیں کہ شوبھیندو ان کے ساتھ ہیں کیوں کہ انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دیا ہے پارٹی سے نہیں لیکن یہ ان کی خوش فہمی ہی کہی جاسکتی ہے۔استعفیٰ دینے سے پہلے سے ہی شوبھیندو نہ صرف پارٹی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوگئے تھے بلکہ انہوں نے پارٹی کا بینر استعمال کیے بغیر ہی تینوں اضلاع میں بڑے بڑے جلسے بھی کیے ہیں۔پارٹی چھوڑنے کا اس سے کھلا اشارہ کوئی اور نہیں ہوسکتا ہے۔ اب صرف اس بات کا انتظار رہ گیا ہے کہ شوبھیندو کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ کیاوہ بی جے پی میں شامل ہوں گے یا الگ پارٹی بنائیں گے؟ ان دونوں میں سے جو بھی صورتحال ہو یہ تو یقینی ہے کہ جنگل محل کے تینوں اضلاع ترنمول کانگریس کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں اور یہاں کی کل65اسمبلی سیٹیں بھی دوسروں کی جھولی میں جانے والی ہیں۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS