اچھی حکومتوں کی یہ خواہش رہتی ہے کہ وہ ریاست میں بے روزگاری ختم کریں، مفلسی دور کریں اور خوشحالی لائیں۔ ان کاموں کے لیے سرمایہ کاروں کا حوصلہ بڑھانا اور صنعتوں کے لیے بہتر ماحول بنانا ضروری ہوتا ہے اور ماحول جرائم ختم کیے بغیر نہیں بن پاتا۔ اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ وزیراعلیٰ بننے کے بعد سے جرائم ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہاں کئی انکاؤنٹر ہوچکے ہیں۔ وکاس دوبے کے انکاؤنٹر پر تو کافی بحث و مباحثے ہوئے تھے مگر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ تہیہ سا کر رکھا ہے کہ وہ اترپردیش کو بدل کر ہی چین لیں گے، چنانچہ ان کی حکومت نے اسپیشل سیکورٹی فورس یعنی ایس ایس ایف کی تشکیل کی ہے۔ ایڈیشنل چیف سکریٹری داخلہ اونیش کمار اوستھی کے مطابق، ’پہلے مرحلے میں اسپیشل سیکورٹی فورس کی 5 بٹالین کی تشکیل ہوگی جس میں 9919 ملازمین ہوں گے۔ اس کا ہیڈ کوارٹرس لکھنؤ ہوگا۔‘
گورنر کی منظوری کے بعد اسپیشل سیکورٹی فورس پر نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے، اس لیے اب بات اس فورس کی تشکیل پر نہیں بلکہ اس پر ہونی چاہیے کہ اس کے متحرک ہو جانے کے بعد حالات میں کیا تبدیلی آئے گی۔ شبہ یوگی حکومت کی منشا پر کرنا ٹھیک نہیں، البتہ بات اسپیشل سیکورٹی فورس کے اختیارات پر کرنا نامناسب نہیں، کیونکہ اسے بغیر وارنٹ کے گرفتاری اور گھر تلاشی لینے کے اختیارات دیے گئے ہیں اور رپورٹ کے مطابق، ’حکومت کی اجازت کے بغیر اسپیشل سیکورٹی فورس کے افسران اور ملازمین کے خلاف عدالت بھی کوئی نوٹس نہیں لے گی۔‘ ایسی صورت میں یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے کہ پھر ملزمین انصاف کی کتنی امید رکھ پائیں گے؟ اس سوال کے اطمینان بخش جواب کی اہمیت اس لیے بھی ہے، کیونکہ پولیس کے رول پر شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ حال ہی میں وکاس دوبے کے انکاؤنٹر پر بھی شبہات ظاہر کیے گئے تھے۔
اترپردیش ایک جمہوری ملک کی ریاست ہے۔ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی کوئی پارٹی انتخابی عمل سے گزرنے اور خاطر خواہ نشستیں حاصل کرنے کے بعد ہی حکومت بنانے کی اہل ہوتی ہے۔ گزشتہ 3 بار کے اسمبلی انتخاب پر اگر نظر ڈالی جائے تو 2007 میں بہوجن سماجوادی پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی تو 2012 میں اکثریت حاصل کرنے میں سماجوادی پارٹی کامیاب رہی تھی اور2017 میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیابی بی جے پی کو ملی تھی۔کوئی پارٹی دعوے سے نہیں کہہ سکتی کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں اس کی پوزیشن کیا رہتی ہے، اسپیشل سیکورٹی فورس کو ’بغیر وارنٹ کے گرفتاری اور گھر تلاشی لینے کے اختیارات‘ دینا اگر ایک اہم سیاسی ایشو بن جائے تو یہ حیرت کی بات نہیں ہوگی۔ اترپردیش میں کانگریس کے سربراہ اجے کمار للو نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ چپ نہیں بیٹھیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ریاست میں نظم و نسق میں فیل ہو چکی بی جے پی حکومت نے ایس ایس ایف کی تشکیل اس لیے کی ہے تاکہ اپنے مخالفین پر اپنے ہی اشارے پر منمانی کارروائی کر سکے اور لوگوں کو ٹارچر کر سکے۔ اس قانون سے مخالفین کا، دلتوں، پسماندہ، غریبوں اور اقلیتوں کا استحصال ہوگا۔ جمہوریت اور آئین کی روح کے خلاف یہ قانون فوراً رد کیا جانا چاہیے۔ نہ دلیل، نہ وکیل کے اصول پر کام کرنے والے اس قانون کے خلاف ہم ایوان سے لے کر سڑک تک لڑیں گے۔‘اجے کمار للو نے اگر اپنے کہے کے مطابق کیا تواس کا کتنا فائدہ یا نقصان کانگریس کو ہوگا، یہ بات یوگی آدتیہ ناتھ سمجھنے کے اہل ہیں۔
اسپیشل سیکورٹی فورس کو ’بغیر وارنٹ کے گرفتاری اور گھر تلاشی لینے کے اختیارات‘دینے سے عام آدمی کے آئینی تحفظ کے ختم ہونے اور آرٹیکل 21 کے حوالے سے تشویش کا لاحق ہونا فطری ہے۔ اسپیشل سیکورٹی فورس کی خدمات نجی ادارے بھی لے سکیں گے۔ ایسی صورت میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ نجی اداروں کے تحفظ کے لیے سی آئی ایس ایف کی موجودگی کے باوجود اسپیشل سیکورٹی فورس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ہے؟ دعوے سے یہ کہنا ممکن نہیں کہ ایک ہی پارٹی کی حکومت ہمیشہ رہے گی تو دعوے سے یہ کہنا بھی ممکن نہیں کہ اسپیشل سیکورٹی فورس کے اختیارات میں مزید توسیع نہیں کی جائے گی اور اس کا استعمال سیاسی حصولیابیوں کے لیے نہیں ہوگا، اس لیے وقت رہتے اسپیشل سیکورٹی فورس کے اختیارات پر ہمہ جہت پہلوؤں سے اور مستقل کے مدنظر غور کر لینا ضروری ہے، کیونکہ اختیارات دینا جتنا آسان ہوتا ہے اتنا ہی آسان اختیارات ختم کرنا نہیں ہوتا اور نظم و نسق قائم رکھنے والوں کو ایک حد میں ہی اختیارات دینا بہتر ہوتا ہے۔
[email protected]
یوپی میں اسپیشل سیکورٹی فورس
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS