رکشا کوچ‘پر ہنگامہ’

0

زراعت سے متعلق 3میں سے 2بل ایوان زیریں سے پاس ہوگئے ہیں مگر ان کے خلاف کسانوں کا احتجاج رکتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ ان بلوں کے حوالے سے کسان کتنے دلبرادشتہ ہیں، اس کا اندازہ مالوہ بیلٹ سے آنے والی ایک خبر سے ہوتا ہے۔ خبر کے مطابق، کسانوں نے یہ انتباہ جاری کیا ہے کہ جو لیڈر ان کی حمایت کرے گا، اسے گاؤں میں گھسنے نہیں دیا جائے گا۔ شرومنی اکالی دل کی لیڈر ہرسمرت کور بادل نے اس ایشو پر مرکزی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ آرڈیننس ’کسان مخالف‘ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی پارٹی ان کی مخالفت کررہی ہے۔ لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ’کسان اور گاہک کے بیچ جو بچولیے ہوتے ہیں، جو کسانوں کی کمائی کا بڑا حصہ خود لے لیتے ہیں، ان سے بچانے کے لیے یہ بل لائے جانے بہت ضروری تھے۔ یہ بل کسانوں کے لیے رکشاکوچ بن کر آئے ہیں لیکن کچھ لوگ دہائیوں تک اقتدار میں رہے ہیں، دیش پر راج کیا ہے، وہ لوگ کسانوں کو اس موضوع پر بھرمت(گمراہ) کرنے کی کوشش کررہے ہیں، کسانوں سے جھوٹ بول رہے ہیں‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کسانوں کو بلوں کے ’سچ‘ سے واقف کرانے میں کامیاب ہوپائے گی،ان کی غلط فہمی دور کرپائے گی، ان کا احتجاج ختم کراپائے گی؟‘
حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ منی مم سپورٹ پرائس پہلے کی طرح جاری رہے گا، ختم نہیں کیا جائے گا مگر کسانوں کو لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں منی مم سپورٹ پرائس ختم کردیا جائے گا۔ پنجاب میں 12لاکھ کسان ہیں اور 28ہزار رجسٹرڈ کمیشن ایجنٹ ہیں۔ 2018-19 میں مرکزی حکومت نے 443میٹرک ٹن گیہوں کی خریداری کی۔ اس میں 113.3میٹرک ٹن گیہوں پنجاب سے خریدا۔ کسانوں اور رجسٹرڈ کمیشن ایجنٹوں کو ڈر ہے کہ منی مم سپورٹ پرائس اگر بند کردیا گیا تو ان کا کیا ہوگا یعنی حال سے زیادہ انہیں مستقبل کا خوف ہے اور یہی خوف انہیں سڑکوں پر لے آیا ہے۔ خوف پر سیاست نہیں ہونی چاہیے لیکن اس طرح کی سیاست کوئی نئی نہیں ہے۔ جہاں تک بات شرومنی اکادلی دل کی ہے، اس نے زرعی آرڈیننس پر جو موقف اختیار کیا ہے، وہ واضح نہیں ہے۔ ہرسمرت کور بادل نے کابینہ سے استعفیٰ دیا ہے لیکن شرومنی اکالی دل این ڈی کا حصہ ہے۔ سکھبیر سنگھ بادل کا یہ کہنا ہے کہ ’سبھی اکالی کسان ہیں اور سبھی کسان اکالی ہیں‘۔ اور کسانوں سے ہمدردی کے ان کے اظہار کی غالباً یہ بھی وجہ ہو مگر یہ بات وہ نظرانداز نہیں کرسکتے کہ 2017کے اسمبلی انتخابات میں پنجاب کی 117سیٹوں میں سے ان کی پارٹی 15سیٹیں ہی جیتنے میں کامیاب ہوسکی تھی۔ 2022میں اگلا اسمبلی الیکشن ہونا ہے، شرومنی اکالی دل کے ذمہ دار لیڈران یہ سمجھ سکتے ہیں کہ آج کسانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا مطلب کیا ہے۔ اسی طرح وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ این ڈی اے میں ان کی پارٹی کا رہنا کیوں ضروری ہے، چنانچہ وہ ایک طرف کسانوں کے حامی ہونے کا اظہار کررہے ہیں، سکھبیر سنگھ بادل یہ کہہ رہے ہیں کہ ’سرکار 50سال سے بنے فصل خرید کے نظام کو بربادکررہی ہے اور میری پارٹی اس کے خلاف ہے۔‘ تو دوسری طرف شرومنی اکالی دل این ڈی اے کا بھی حصہ ہے۔ اسی طرح کا موقف اس پارٹی نے سی اے اے کے سلسلے میں بھی اختیار کیا تھا۔ لوک سبھا میں اس کی حمایت کی تھی لیکن پنجاب میں اس کی مخالفت کی تھی، اس لیے کسانوں کو احتجاج کرنے سے پہلے وزیراعظم کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے،حکومت کی اس یقین دہانی کو انہیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ منی مم سپورٹ پرائس دینے کا سلسلہ جاری رہے گا مگر وہ اس وقت کسی کی سننے کے زیادہ موڈ میں نہیں ہیں۔ اس ایشو کا اثر ہریانہ اور دیگر ریاستوں میں بھی نظر آئے تو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ بہار الیکشن کے مدنظر این ڈی اے کے لیے باعث پریشانی یہ بات ہوگی کہ اس کی اتحادی پارٹی کا موقف اس کے برعکس ہے اور وہ اسے یہ نہیں سمجھا پارہا ہے کہ زرعی بلوں کے لانے کا اصل مقصد کیا ہے، انہیں لانا کیوں ضروری تھا۔ ویسے امید کی جانی چاہیے کہ شرومنی اکادلی دل زیادہ دنوں تک ناراض نہیں رہے گی، مان جائے گی، کیوں کہ ایک حد تک احتجاج کرنے کے بعد مان جانے میں ہی اس کا بھلا ہے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS