چین پر اپوزیشن کی کوتاہ اندیشی

0

دفاع تحفظ اورسلامتی کے معاملات میں پوری قوم کا متحد اورمتفق ہونا ضروری ہے۔ چین سے جاری کشیدگی کے درمیان اپوزیشن کی جانب سے بار بار اٹھائے جارہے اعتراضات نے عالمی برادری کو یہ غلط پیغام دیاہے کہ ہندوستان میں اس معاملے پر اختلاف رائے پایا جارہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں پوری قوم متحد و متفق ہے اور سرحد کی حفاظت میں تعینات فوجیوں کی پشت پر پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ایستادہ ہے۔قوم کا یہ اتحادہی ہے جو ہماری فوج کو دشمن کے دانت کھٹے کرنے کا حوصلہ دیتا ہے، یہ بات فوج کے ساتھ ساتھ حکومت بھی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ ملکی حفاظت اور سالمیت کیلئے اس کے ہر فیصلہ کی پوری قوم اتفاق رائے سے توثیق کرے گی۔لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ حکومت قوم کو اعتماد میں لے، بالخصوص قومی سلامتی کے نازک اور حساس معاملات کو عوام کی نمائندگی کرنے والے ارکان سے پوشیدہ نہ رکھے۔ورنہ اسی طرح کی غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جو سرحد کے نگہبانوں کی حوصلہ شکنی کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ 
وقت کی اسی ضرورت کو سمجھتے ہوئے آج راجیہ سبھا میں چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو نے وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کو حزب اختلاف کے ممتازرہنمائوں کے ساتھ علیحدگی میں بات چیت کرکے انہیں اعتماد میں لینے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ لداخ کی صورتحال سے انہیںآگاہ کریں۔وینکیانائیڈو کا یہ مشورہ انتہائی صائب ہے کیوں کہ قومی سلامتی کے معاملات پر سرعام مباحث دانائی نہیں کہی جاسکتی ہے۔ مشرقی لداخ میں صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے، فوج سرحد پر کھڑی ہے۔ایسے میں بھرے ایوان میں جس کی کارروائی براہ راست نشر ہوتی ہو وزیردفاع کے بیان پر اپوزیشن کا جواب طلب کرنا کوتاہ اندیشی ہے۔ وینکیانائیڈو نے اس کا ازالہ کرتے ہوئے جو راہ سجھائی ہے وہ سب سے بہتر ہے۔
اپوزیشن لیڈروں کو بریف کرکے حکومت انہیں اعتماد میں لے سکتی ہے اور اس مسئلہ میں اختلاف رائے کی غلط فہمی کا بھی ازالہ ہوسکتا ہے۔یہ موقع ایسا ہے کہ ہمیں عالمی برادری کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ملکی تحفظ کے اس معاملے میں پوراملک اور پارلیمنٹ فوج کے ساتھ متحد ہے۔ 
گزشتہ چار ماہ سے مشرقی لداخ میں جاری سرحدی تنازع اور کشیدگی کے دوران یہ پہلا موقع ہے جب حکومت نے عوام کو صورتحال بتائی ہے۔ راجیہ سبھا میں پہلی بار بیان دیتے ہوئے وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے ہندوستان کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ملکی مفاد میں سخت ترین اقدامات سے بھی گریز نہیں کیاجائے گا۔ہندوستان نہ تو اپنا سر جھکائے گا او ر نہ وہ کسی کاسر جھکانے کا خواہش مند ہے۔ مشرقی لداخ کی صورتحال پرارکان کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزیردفاع نے اقرار کیا کہ وہاں ہندوستان کوسخت چیلنج کا سامنا ہے اور ہندوستانی فوج پوری جواں مردی کے ساتھ اس چیلنج کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔ حکومت قوم کا سر جھکنے نہیں دے گی۔ وزیر دفاع کایہ اقرار کرنا کہ سرحد پر حالات چیلنج والے ہیں، مسئلہ کی سنگینی کو بتارہاہے۔ اس سنگینی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلی بار ایوان کو صورتحال بتاتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کیلئے چین کے خلاف ہر طرح کی تدبیر استعمال کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مشرقی لداخ میں ایل اے سی پرآج جو حالات ہیں ان سے نمٹنا بڑا چیلنج ثابت ہورہاہے۔ چین آئے دن معاملے کو مزید سنگین بناتاجارہاہے۔
ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدوں کے واضح تعین تک لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی)پر اتفاق رائے کے باوجود چین اس کی لگاتار خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔ سابقہ معاہدوں میں یہ طے ہوا تھا کہ جب تک سرحدی تنازع کا مستقل حل نہیں نکل جاتا تب تک ایل اے سی پر کم سے کم فوج تعینات کی جائے اور کوئی بھی فریق ایل اے سی کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اس کے علاوہ1990سے لے کر2003تک دونوں ملکوں نے ایل اے سی پر اتفاق رائے بنانے کی سمت میں کئی قدم بڑھائے لیکن بعد میں چین اس کارروائی کوآگے بڑھانے پر متفق نہیں ہوا۔چین چاہتا ہی نہیں ہے کہ ایل اے سی کے سلسلے میں دونوں ملک کسی ایک رائے پر متفق ہوں۔چین کی ان حرکتوں سے ظاہر ہے کہ وہ خطہ میں امن کی بجائے جنگ کا خواہش مند ہے لیکن ہندوستان خطہ میں امن بحال رکھنے اور بات چیت سے اس مسئلہ کا حل نکالنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے جسے اپوزیشن پارٹیاں حکومت کی کمزوری سمجھ رہی ہیں۔
 اپوزیشن کو سمجھناچاہیے کہ جنگ چھیڑنا آسان ہے لیکن اسے ختم کرناناممکن ہوجاتا ہے۔ مسئلہ کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کو حکومت کی کمزوری نہیں سمجھاجانا چاہیے۔ دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو ہندوستانی فوجیوں کو اپنی سرحدوں کی نگہبانی اور گشت سے بازرکھ سکے۔امید ہے کہ وزیردفاع، و ینکیا نائیڈو کے مشورہ کا پاس رکھتے ہوئے اپوزیشن لیڈروں سے بات چیت کریں گے اور ان کے تحفظات کو دور کرکے چین کے مسئلہ پر پوری قوم کے اتحاد و اتفاق کا پیغام دنیا کو دیں گے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS