اللہ ایک ہے اور وہ سب کا ہے مگرمختلف ناموں سے اللہ کو پکارنے والے لوگ اسے خود تک محدود کرکے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ اللہ لامحدود ہے۔ اس نے سبھی انسانوں کے لیے ایک سے سکھ دکھ بنائے ہیں۔ اس نے مختلف انسانوں کے لیے مختلف سورج نہیں بنائے۔ چاند کو یہ حکم نہیں دیا کہ کسی پر کم اور کسی پر زیادہ چاندنی بکھیرے۔ اللہ نے آپؐ کو ساری کائنات کے لیے رحمت بنایا ہے۔ خانے میں بٹے ہوئے اکثر لوگ یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ رحمت اللعالمینؐ کے ماننے والوں کو دوسروں کے لیے رحمت بننا چاہیے، زحمت نہیں۔ دوسروں کے لیے رحمت وہ مدد کا ہاتھ دراز کرکے ہی بن سکتے ہیں اور مدد کا ہاتھ جب وہ بلاتفریق مذہب و ملت بڑھائیں گے، اس کی تعریف کا دائرہ خودبخود بڑھتا جائے گا، لوگ مثالیں دیں گے جیسے کورونا وائرس کے اس دورمیں جموں و کشمیر کی مسجدیں مثال بن گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، وادی کشمیر میں وینٹی لیٹر کی کمی اور آکسیجن کے لیے لوگوںکا گھنٹوں کا انتظار ختم کرنے کے لیے کچھ مسجدوں کی انتظامیہ نے پہل کی۔ انہوں نے لوگوں کی امداد اور صدقے کے پیسوں سے آکسیجن کانسنٹریٹر خرید لیے۔ یہ مشینیں آکسیجن کے ضرورت مند لوگوں کو نہایت معمولی قیمت پر مہیا کرائی جاتی ہیں۔ اگر کسی کے پاس دینے کے لیے پیسے نہ ہوں تو ان سے پیسے نہیں لیے جاتے۔ غازی مسجد کی انتظامیہ کے رکن فاروق احمد کا کہنا ہے کہ ’ہم 50روپے روزانہ کرائے کے حساب سے یہ مشین ضرورت مند افراد کو دیتے ہیں۔ جو لوگ 50روپے بھی نہیں دے سکتے، انہیں ہم فری میں مشین دے دیتے ہیں۔‘ ایک مشین کی قیمت 60ہزار روپے ہے۔ مسجد انتظامیہ نے آکسیجن کانسنٹریٹر کے ساتھ نیبولائزر مشینیں بھی خریدی ہیں۔ فی الوقت کشمیر میں کچھ ہی مسجدوں میں اس طرح کی مشینیں خریدی گئی ہیں مگر کئی مسجدوں کو این جی او مشینیں مہیا کرارہی ہیں۔
آکسیجن مہیا کرانے کی مسجدوں کی پہل سے اسپتالوں پر بوجھ کسی حد تک کم ہوتا ہے۔ وادی کشمیر میں اب تک 45ہزار سے زیادہ لوگ کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں۔ وطن عزیز ہندوستان کے دیگر علاقوں میں حالات زیادہ خراب ہیں، اس لیے اس سلسلے میں ان علاقوں کی مسجدوں کی انتظامیہ کو بھی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے۔ انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ مدد کی ضرورت کن لوگوں کو ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرسکیں۔ عالمی وبا کے اس دور میں انہیں مسلمانوں کو اپنی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری کا احساس دلانا چاہیے اور اہل وطن کو یہ محسوس کرانا چاہیے کہ مسجدیں صرف عبادت گاہ نہیں ہیں، یہ وہ مقدس مقامات ہیں جہاں بلاتفریق مذہب و ملت انسانوں کی خدمت کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس تعلیم کا عملی اظہار بھی کیا جاتا ہے۔
وطن عزیز ہندوستان میں 3لاکھ سے زیادہ وہ مسجدیں ہیں جہاں نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔ ان تمام مسجدوں کی انتظامیہ کو اگر لوگ روپے دستیاب کرائیں، اگر انتظامیہ ضرورت مند لوگوں کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے تو اس سے حالات میں مثبت تبدیلی آئے گی، لوگ مسجدوںکی اہمیت سمجھ پائیں گے۔ ویسے پچھلے چند برسوں سے بنگلورو اور ممبئی کی ایک سے زائد مساجد کی انتظامیہ ان لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کرتی ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ ہر مسجد میں درس و تدریس کا بھی انتظام ہونا چاہیے تاکہ وطن عزیز کا ہر بچہ زیورتعلیم سے آراستہ ہوسکے۔ مسجدوںمیں محلے اور گلی کے لوگوں کی عام بیماریوں کے لیے شفاخانہ بھی ہونا چاہیے تاکہ چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے لیے لوگوں کو اسپتالوں کی ٹھوکریں نہ کھانا پڑے۔ کشمیر کی مسجدوں کی انتظامیہ نے ایک راہ دکھائی ہے، ایک مثال قائم کی ہے۔ اس مثال کا دائرہ کشمیر سے کنیاکماری تک بڑھنا چاہیے، کیوں کہ امداد کا دائرہ جتنا بڑھے گا، ضرورت مند لوگوں کے لیے اتنی ہی آسانیاں ہوں گی اور کورونا سے لڑائی مشکل نہیں رہ جائے گی۔ کورونا کے خلاف جیت پر شبہات کی کوئی گنجائش نہیں رہ جائے گی۔
[email protected]
کشمیر نے دی مثال
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS