تاریخ صرف ناز کرنے اور ماضی میں جینے کا نام نہیں ہے۔ تاریخ کے آئینہ میں دیکھ کرحال کی اصلاحات کی جاتی ہیں اور مستقبل کے خدوخال سنوارے جاتے ہیں۔غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے طور و اطوار کو درست کیاجاتا ہے۔ اس کے برعکس ’سنہرے ماضی‘ کو حرزجان بنانا اور اپنی پسند کی تاریخ لکھنا حال اور مستقبل دونوں ہی کیلئے تباہی کا سامان ہوتا ہے۔ یہ عمل تعمیری اور مثبت فکر پروان چڑھانے کے بجائے تخریب اور افتراق کے بیج بوتا ہے اورایک عذاب مسلسل کی طرح ذہنوں کو کچوکے لگاتارہتا ہے۔ غالب نے اسی سے پناہ مانگتے ہوئے اپنا حافظہ چھین لیے جانے کی دعا کی تھی۔
ملک کے موجودہ حکمراں تاریخ سے سبق لے کر آگے بڑھنے کے بجائے اپنی پسند کی تاریخ گڑھنے اور اسی گڑھی ہوئی تاریخ میں جینے کی ایسی کوشش میں مصروف ہیں جو پورے ملک میں فرقہ واریت کی آگ کو مزید بھڑکانے اور ہم وطنوں کو ایک دوسرے کا گلاکاٹنے پر منتج ہوسکتی ہے۔تاریخی حقائق اور واقعات کو غلط ثابت کرنے کیلئے اپنی پسند کی تاریخ لکھنے، پڑھنے اور پڑھانے کا یہ سلسلہ روزبروز تیز ہوتاجارہاہے۔
وزیراعظم نریندر مودی بھی ہندوستان کی اب تک لکھی گئی تاریخ سے مطمئن نہیں ہیں اور آج انہوں نے واشگاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ تاریخ لکھنے میں ناانصافی ہوئی ہے، ہماری حکومت پرانی غلطیوں کو درست کررہی ہے۔ہندوستان کی تاریخ وہ نہیں ہے جو کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے۔وزیراعظم آج اترپردیش کے بہرائچ میں ’مہاراجہ سوہیل دیو‘ کی یادمیں تعمیر کی جانے والی عظیم الشان عمارت کے سنگ بنیاد کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں سردار ولبھ بھائی پٹیل سے لے کر باباصاحب بھیم رائو امبیڈکر تک سے ناانصافی کیے جانے کا شکوہ کیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ ملک کو غلام بنانے والوں اور غلامانہ ذہنیت کے حامل افراد نے ہندوستان کی تاریخ لکھی ہے۔حقیقی تاریخ کچھ دوسری ہی ہے۔آزادی کے بعد چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو منظم کرکے انہیں ہندوستان میں شامل کیے جانے سے متعلق سردار پٹیل کی کارگزاریوں کا ذکر کرتے ہو ئے انہوں نے کہا کہ سردار کے قد کے مطا بق انہیں تاریخ میں جگہ نہیں دی گئی،اس لیے ان کی حکومت نے سردار پٹیل کا مجسمہ بناکران کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ وزیراعظم نے یہ شکوہ بھی کیا کہ ہزاروں ایسے مجاہدین آزادی ہیں جن کا ذکر تاریخ میں نہیں کیاگیا ہے۔مہاراجہ سوہیل دیو کا بھی تاریخ میں مناسب ذکر نہ کیے جانے کی شکایت کی۔
یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر ان کا ذکر تاریخ میں نہیں ہے تو وزیراعظم یا ان کی پارٹی کو اس کا علم کہاں سے ہو رہاہے۔یہ تاریخی شخصیات خواب میں آکر انہیں اپنے کارنامے بتانے سے رہیں۔ پھرکون سا ایسا ذریعہ ہے جوان تاریخی ہستیوں کے بارے میںانہیں معلومات فراہم کررہاہے۔
یہ تاریخ ہی ہے لیکن یہ تاریخ موجودہ حکمرانوں کی پسند کے مطابق نہیں ہے، اس لیے نہ تو وہ اسے تاریخ سمجھ رہے ہیں نہ اس سے سبق لے کرا صلاح احوال کے خواہش مند ہیں۔وزیراعظم نے آج کی اپنی تقریر میں بین السطور یہ پیغام دے دیا کہ اب تک کی لکھی گئی تاریخ، تاریخ نہیں بلکہ کوڑے دان کی نذر کی جانے والی بے کارشئے ہے۔تاریخ دراصل وہ ہے جو وہ اور ان کی پارٹی آج لکھ رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہندوستان میں جو طبقہ حکمرانی کررہاہے اس کا ماضی جدوجہد آزادی اورقومی تحریک کے خزانے سے خالی ہے۔ وطن عزیز کو ڈیڑھ سو سالہ فرنگی استبداد سے نجات دلانے کی جنگ میں اس طبقہ کاکوئی کردار نہیں رہاہے۔ اسی لیے تاریخ بھی اس طبقہ کے افراد کے ذکر سے خالی ہے۔اس خالی جگہ کو پر کرنے کیلئے ہی تاریخ میں ناانصافی اور غلط تاریخ کی دہائی دی جارہی ہے۔کبھی بھگت سنگھ کے کارناموں کا کریڈٹ لیاجاتاہے تو کبھی سردار پٹیل سے خود کو جوڑ کر اپنا قد بلند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ ان دونوں ہی مجاہدین آزادی کا تعلق ان سے نہیں تھا۔ ہندوستان کو اپنا وطن بنانے اور اسے تہذیب وثقافت کی وراثت دینے والے مسلم دور حکمرانی کے باج گزاروں کوہیرو بنانے کا رویہ بھی یہی داغ چھپانے کی کوشش ہے۔
مسلمہ تاریخی حقائق کو غلط قرار دے کر نئی تاریخ لکھنے کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا تو ہندوستان کی تاریخ، تاریخ نہیں بلکہ اساطیری اور دیومالائی قصوں کا مجموعہ بن جائے گی اورایسے قصے کہانیوں سے بچوں کو تو بہلایا جاسکتا ہے مگر قوموں کی تعمیر اور مستقبل کا سفر طے کرنے کیلئے بہرحال تاریخی حقائق لازمی حیثیت رکھتے ہیں۔تاریخ چاہے حسین و تابناک ہو یا کڑوی، کسیلی اور شرم ناک ان سے دامن بچانا اوراسے اپنی پسند کے مطابق ڈھالنا ملک دوستی یا قوم پرستی نہیں کہی جاسکتی ہے۔ ملک و قوم کو اپنا سفر طے کرنے کیلئے ماضی کی غلطیوں کو درست کرنا پڑتا ہے اور یہ غلطیاں اور کوتاہیاں ہمیں حقیقی اور درست تاریخ میںہی نظرآتی ہیں دیومالائی اور اساطیری قصے کہانیوں میں نہیں۔
[email protected]
’تاریخ میں ناانصافی‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS