فلسطینی 72 سال سے امتحان دے رہے ہیں۔ ہر امتحان نے انہیں پہلے سے زیادہ مضبوط کیا ہے، یہ اندیشہ ان کے بارے میں نہیں رکھنا چاہیے کہ کوئی امتحان یا کوئی آزمائش ان کے حوصلوں کو پست کر دے گی، انہیں شکستگی کا احساس دلائے گی، مایوسیوں کے اندھیرے میں انہیں دھکیل دے گی۔ ایک کے بعد ایک عرب ملک کے اسرائیل سے ہاتھ ملانے کا اثر فلسطینیوں پر زیادہ نہیں پڑے گا، البتہ مسئلۂ فلسطین کے بہانے اکثر عرب ممالک جو سیاست کیا کرتے تھے، وہ اب نہیں کر پائیں گے۔ اکثر عرب ممالک عالمی برادری میں اپنی جو یہ شبیہ رکھتے تھے کہ وہ فلسطینیوں کے بہی خواہ ہیں، اب ان کی یہ شبیہ برقرار نہیں رہے گی، کیونکہ انہوں نے مسئلۂ فلسطین کو سلجھانے کے بعد اسرائیل سے ہاتھ نہیں ملایا ہے، فلسطینیوں کے بہبود کے لیے ہاتھ نہیں ملایا ہے، انہوں نے اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے ہاتھ ملایا ہے۔ یہ بات بھی ناقابل فہم نہیں رہ گئی ہے کہ آج تک عرب ممالک کے اسرائیل سے دوری بناکر رکھنے میں بھی ان کا اپنا ہی مفاد تھا، اس وقت ان کے جتنا تیل کسی اور ملک کے پاس نہیں تھا، انہیں تیل کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک اہمیت دیا کرتے تھے مگر اب سعودی عرب جیسا ملک تیل کی پیداوار کے معاملے میں پہلے نمبر پر نہیں ہے۔ اس سے آگے امریکہ اور روس ہیں۔ دیگر عرب ممالک کے لیڈران بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ تیل کے کئی متبادل دنیا میں آچکے ہیں، وہ جب اونچی عمارتیں بنوا رہے تھے تو امریکہ اور اسرائیل جیسے ملکوں میں نئی ٹیکنالوجی پر ریسرچ چل رہی تھی، وہ اسپیس ٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی پر ریسرچ کر رہے تھے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے زراعت کو زیادہ نفع بخش بنا رہے تھے، چنانچہ ایک طرف اسرائیل کی ٹیکنالوجی عربوں کو ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا دینے پر مجبور کر رہی ہے تو دوسری طرف ایران کی بڑھی ہوئی طاقت انہیں خوفزدہ کررہی ہے، انہیں امریکہ کے سہارے کی ضرورت ہے اور ٹرمپ کو یہودی لابی کی حمایت کی ضرورت ہے، ان دونوں ہی ضرورتوں میں فائدہ اسرائیل اور اسرائیلیوں کا ہے، بنیامن نیتن یاہو کا ہے لیکن زیادہ نقصان فلسطینیوں کا بھی نہیں ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے عرب ممالک کے اسرائیل سے در پردہ تعلقات کی بات کی جاتی تھی، اس کا اندازہ اس وقت بھی ہوتا تھا جب غزہ پر اسرائیلی بمباری پر عرب ممالک چپی سادھے رکھتے تھے لیکن بمباری کے ختم ہوتے ہی فلسطینیوں کی امداد کے لیے بڑے اجلاس منعقد کیا کرتے تھے، فلسطینیوں سے ہمدردی کا اظہار کیا کرتے تھے مگر اب وہ ایسا نہیں کر پائیں گے۔ اب دنیا کو انہوں نے یہ دکھا دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے دوست ہیں، کیونکہ انہیں خیال اپنا ہے، فلسطینیوں کا نہیں مگر رپورٹوں سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ اس نئے حالات نے فلسطینی لیڈروں کو یہ احساس دلا دیا ہے کہ وہ متحد ہو کر ہی اس نئی صورت حال کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ امید رکھی جانی چاہیے کہ ان کے مابین اس بار جو اتحاد ہوگا، وہ 2007 جیسا اتحاد نہیں ہوگا۔ اس بار اپنے ذاتی مفاد کے ساتھ انہیں اپنے وجود کا بھی خیال رہے گا، انہیں ان ملکوں کی بات ماننے کے لیے مجبور نہیں ہونا پڑے گا جو ان کی مدد کیا کرتے تھے، البتہ انہیں بڑی دانشمندی سے نئے ملکوں کا مہرہ بننے سے خود کو روکنا ہوگا، کیونکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ مسئلۂ فلسطین کے سلسلے میں عرب ملکوں کے سائڈہوتے ہی نئے مسلم ممالک کا ایک گروپ اس مسئلے سے دلچسپی لے سکتا ہے اور اسلام، مسلمان کی سیاست کر سکتا ہے۔
فلسطینیوں نے اتنا دکھ دیکھ لیا ہے کہ کوئی نیا دکھ ان پر اثر انداز نہیں ہوسکتا، کوئی مایوس کن بات ان کے لیے مایوسیوں کی وجہ نہیں بن سکتی۔ 2007 میں الفتح اور حماس کے الگ ہو جانے اور پھر الفتح کے لیڈر محمود عباس کو سبھی فلسطینیوں کے ترجمان کے طور پر پروجیکٹ کرنے کے لیے ایناپولیز کانفرنس کے انعقاد اور مسئلۂ فلسطین کو اسرائیلی لیڈروں کی منشا کے مطابق سلجھانے کی کوششوں نے انہیں بددل نہیں کیا تو یہ اندیشہ نہیں رکھاجانا چاہیے کہ نئے حالات سے فلسطینی بددل ہو جائیں گے بلکہ ان عرب ملکوںکے لیڈروں کو خواہ مخواہ فلسطینیوں کا ہمدرد بننے میں وقت نہیں برباد کرنا چاہیے، انہیں اسرائیل سے ہاتھ ملا لینا چاہیے جن کے درپردہ اسرائیل سے رشتہ رکھنے کی کہانی، اب کہانی نہیں رہی، کیونکہ فلسطینی بھی ان کی حقیقت سمجھ چکے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان، امن پسند لوگ اور مسئلۂ فلسطین کو انصاف کی بنیاد پر سلجھانے میں یقین رکھنے والے لوگ بھی ۔ فلسطینی جانتے ہیں، آگے انہیں اپنے حق کی حصولیابی کی جدوجہد خود کرنی ہے، ان کے ساتھ کوئی ہو، نہ ہو، ان کا وہ مالک تو ان کے ساتھ ہے جو کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتااور اپنے مفاد کے حصول کے لیے انصاف کو نظرانداز کر دینے والے لوگ اسے پسند نہیں ہیں!
[email protected]
آزمائش کا وقت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS