!بچوں کی زندگی دائو پر نہ لگائی جائے

0

اپنے قول و فعل کے کھلے تضاد سے دنیا کو چونکادینے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھنے والی مرکزکی مودی حکومت کور ونا کے اس بحران میں بھی اپنے کئی ایک فیصلوں کی وجہ سے موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ تازہ وجہ نزاع ملک کے مستقبل کہے جانے والے بچوں کی حفاظت سے متعلق ہے۔ وزارت داخلہ نے چند ایک شرطوں کے ساتھ 15اکتوبر سے اسکول کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی ’جب تک دوائی نہیں- تب تک ڈھلائی نہیں‘کانیا نعرہ لے کر سامنے آئے ہیں اور کورونا کے خلاف ’جن اندولن‘ چھیڑ چکے ہیں۔ 
اسے طرفہ تماشا ہی کہاجاسکتا ہے کہ جب ملک میں کورونا انفیکشن کے معاملات تیز رفتاری کے ریکارڈ توڑ رہے ہیں گارجین حضرات کو کہا جارہاہے کہ وہ اسکول بھیج کر اپنے جگر گوشوں کی زندگی دائو پر لگائیں۔ ہندوستان میں کورونا کیسز کی کل تعداد 70لاکھ کے آس پاس تک جا پہنچی ہے اور اب بھی 9 لاکھ سے زیادہ فعال معاملات ہیں جب کہ سوا لاکھ کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔آنے والے تہواروں اور سردی کے موسم کی وجہ سے انفیکشن میں بے تحاشہ اچھال آنے کے خدشات بھی ظاہر کیے جانے لگے ہیں۔
ان حالات میں حکومت کے اس فیصلے سے ملک کی اکثریت غیرمطمئن ہے۔ ایک تازہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک کے71فی صد گارجین اپنے بچوں کو اس وقت تک اسکول بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں جب تک اس موذی مرض کاکوئی شافی علاج سامنے نہیں آجاتا ہے جب کہ9فیصد گارجین اس معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پارہے ہیں۔یعنی 80فیصد گارجین موجودہ حالات میں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں۔ گارجین حضرات کا کہنا ہے کہ اسکول میں جسمانی فاصلہ اور سینی ٹائزیشن کا مناسب انتظام ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔یہ سوال بھی تشنہ جواب ہے کہ اگر اساتذہ کو انفیکشن ہوگیا تو اسکول جانے والے بچوں کو کون پڑھائے گا؟ انفیکشن کے خطرہ کے علاوہ بھی اسکول کھولے جانے سے متعلق کئی ایک تشویشات ہیں۔ اسکولوں میں جسمانی فاصلہ قائم رکھنا کیا ممکن ہوپائے گا؟ یہ ایک بہت بڑاسوال ہے۔ چھوٹے اسکول تو چھوٹے ہی ہوتے ہیں لیکن ملک کے بڑے بڑے نجی اسکولوں کے کلاس ر وم بھی اتنے بڑے نہیں ہوتے ہیں کہ وہاں دو بچوں کے درمیان6فٹ کی دوری قائم رکھی جاسکے۔ موجودہ حالات میں اضافی کلاس روم بھی بناپانا اسکولوں کیلئے ناممکن ہوگا۔
ہرچند کہ حکومت کی ہدایت میں یہ دبائو نہیں دیاگیا ہے کہ بچوں کو اسکول بھیجنا ہی ہوگا۔ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ہدایت میں کہاگیا ہے کہ آن لائن کلاس جاری رہیں گے اور کسی بھی طالب علم کو اسکول آنے کیلئے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ نیز جو بچے اسکول آئیں گے انہیں گارجین سے اجازت نامہ لانا ہوگا۔ 
فیس کے معاملہ میں گارجین حضرات کو ناکوں چنے چبوادینے والے اسکولوں سے یہ بعید نہیں ہے کہ وہ فیس کی وصولی کیلئے سبھی بچوں کے لیے گارجین کا اجازت نامہ لازمی بنادیں۔ایک طرف گارجین حضرات بندی کے دوران اسکولوں کی من مانہ فیس وصولی اور اسکول بند ہونے کے باوجود اسکول بس کی مد میں خطیر رقم طلب کیے جانے کی وجہ سے پریشان ہیں اوراس کے خلاف سپریم کورٹ تک جاپہنچے ہیں،جہاں معاملہ زیر غور ہے۔ اسی درمیان بڑھتے انفیکشن کے باوجود اسکول کھولنے کی اجازت دے کر حکومت نے ان کے موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت کے اس اقدام سے دو طرح کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں ایک طرف بچوں کی زندگی دائو پر لگنے والی ہے تودوسری طرف عدالت میں زیر غور فیس کا معاملہ بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ لہٰذاگارجین حضرات کے خدشات کوبے بنیاد نہیںکہا جاسکتا ہے۔ اسکولوں میں بچوں کووائرس کے انفیکشن سے بچاپانا ناممکن ہوگا۔ملک میں ابھی اسکول نہیں کھلے ہیں لیکن اس سے پہلے ہی بچوں میں انفیکشن کے معاملے سامنے آرہے ہیں۔ آندھراپردیش میں اسکول کھلنے سے پہلے 9ویں اور 10ویں جماعت کے وہ طلبا جو اسکول جاکر نوٹس لیا کرتے تھے، ان میں سے27بچے کووڈ متاثر پائے گئے ہیں۔ ریاستی حکومت وضاحت کررہی ہے کہ ان بچوں کو اسکول میں انفیکشن نہیں ہوا ہے، یہ باہر کہیں سے انفیکٹیڈہوئے ہیں۔یہ حکومتی وضاحت اپنے جگر گوشوں کے سلسلہ میں گارجین حضرات کی تشویش کا مداوا بہرحال نہیں ہوسکتی ہے۔ ایسے میں گارجین کا خوفزدہ ہونا اور اسکول نہ بھیجنے کا فیصلہ کرنا فطری امر ہے۔ ویسے بھی وزیراعظم نریندر مودی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’ جان ہے تو جہان ہے‘۔بچے ملک کامستقبل اور اپنے والدین کی جان ہوتے ہیں۔ کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ وہ اپنی جان دائو پر لگائے۔یہ طے ہے کہ ملک کی اکثریت ابھی اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے والی نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ حکومت کوئی ایسی صورت نکالے کہ طلبا کی پڑھائی کا نقصان بھی نہ ہو اورا نہیں انفیکشن کے خطرات سے بھی بچائے رکھاجاسکے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS