بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج کو غیرمتوقع ہی کہا جائے گا۔ یہ نتائج ایسے رہے جن کے بارے میں نہ کسی نے سوچا تھا اور نہ اندازہ لگایا تھا۔ حکمراں این ڈی اے اور عظیم اتحاد کے درمیان ہارجیت کا فرق بھی زیادہ نہیں ہے۔ این ڈی اے کو سادہ اکثریت حاصل ہوئی ہے جسے بڑی کامیابی نہیں کہہ سکتے۔ بی جے پی کی سیٹیں ضرور بڑھی ہیں لیکن اس کی اتحادی پارٹی جنتا دل متحدہ کی سیٹیں کم ہوگئی ہیں۔ وزیراعلیٰ نتیش کمار کی قیادت میں این ڈی اے نے الیکشن لڑ کر ضرور کامیابی حاصل کی اور حکومت کو برقرار رکھا لیکن وزیراعلیٰ کی پارٹی کو الیکشن میں بہت نقصان پہنچا اور وہ اتحاد میں نمبر دو بن گئی جس سے آگے وزارت علیا کے لیے مہاراشٹر جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ 2020کے اسمبلی انتخابات کا موازنہ 2015کے اسمبلی انتخابات سے تو نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اتحادی پارٹیاں بدل گئی ہیں۔ البتہ 2019کے لوک سبھا انتخابات سے ضرور کیا جاسکتا ہے کیوں کہ دونوں میں اتحاد اور اتحادی پارٹیاں یکساں تھیں۔ لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے کو ریاست کی 40میں سے39سیٹوں پر نہ صرف کامیابی ملی تھی بلکہ 200سے زیادہ اسمبلی حلقوں میں ووٹوں کے لحاظ سے سبقت بھی حاصل ہوئی تھی لیکن صرف 17مہینوں میں حالات اس قدر بدل گئے کہ اسمبلی انتخابات میں اتحاد کو 125نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ لوک سبھا انتخابات میں صرف ایک سیٹ پر جیتنے والے عظیم اتحاد نے اسمبلی انتخابات میں اقتدار کی دہلیز تک کا سفر طے کرلیا۔ آخر تک کانٹے کا مقابلہ کیا اور اکثریت کے جادوئی ہندسہ سے صرف 12سیٹیں پیچھے رہ گیا۔ بہرحال اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کی کامیابی سے ایک اور میعاد کے لیے نتیش کمار کی تاج پوشی کی راہ ہموار ہوگئی۔ وہیں بہار میں ہی پرورش پانے اور تعلیم حاصل کرنے والے بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے اپنی قیادت میں پارٹی کو پہلی ہی آزمائش میں بڑی کامیابی دلائی۔
بہار میں ووٹوں کی گنتی طویل 20گھنٹے تک چلی، کافی تاخیر سے صورت حال پوری طرح واضح ہوسکی۔ آخر تک سسپنس رہا۔ 3درجن سیٹوں پر کانٹے کے مقابلہ کی خبریں تو آرہی تھیں لیکن ٹیلی ویژن اسکرین پر ناظرین کو رجحانات میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا تھا جیسا کہ ہر راؤنڈ کی گنتی کے بعد عموماً نظر آتا ہے، شاید اسی لیے گنتی پر سوالات کھڑے کیے جارہے ہیں اور ہارنے والی پارٹیوں کی طرف سے الزام تراشی کی جارہی ہے لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے جتنی پرامن پولنگ رہی اتنی ہی پرامن ووٹوں کی گنتی بھی۔ اگر فائدے اور نقصان کے لحاظ سے نتائج کو دیکھا جائے تو بی جے پی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ نئی اسمبلی میں اس کی سیٹیں جنتا دل متحدہ سے بہت زیادہ ہوگئیں اور وہ این ڈی اے میں نمبر ایک اور اسمبلی میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ بی جے پی کے علاوہ اگر کسی پارٹی کو فائدہ ہوا ہے تو وہ مجلس اتحاد المسلمین(ایم آئی ایم) ہے جو سیٹوں کے لحاظ سے اسمبلی میں چھٹے نمبر پر ہوگئی۔ سابقہ اسمبلی کی طرح اس بار بھی راشٹریہ جنتا دل نے معمولی نقصان کے باوجود اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کا درجہ برقرار رکھا۔ جنتا دل متحدہ تیسرے نمبر پر، کانگریس چوتھے اور سی پی آئی(مالے) پانچویں نمبر پر رہی۔ اس بار بہار اسمبلی الیکشن کی ایک بڑی بات یہ رہی کہ نوٹا(NOTA) ووٹ صرف ڈیڑھ فیصد ہی پڑے۔
بہاراسمبلی الیکشن کے نتائج جب آئے تو سارے اندازے غلط ثابت ہوگئے۔ حکومت مخالف لہر کے باوجود این ڈی اے کی سرکار برقرار رہ گئی۔ عظیم اتحاد اور تیجسوی یادو کو توقع کے مطابق کامیابی نہیں ملی۔ کوئی کنگ میکر نہیں بن سکا البتہ 2-2پارٹیاں گیم چینجر بنیں۔ لوک جن شکتی پارٹی کو اگرچہ صرف ایک سیٹ ملی لیکن 50سیٹوں پر اس نے دوسری پارٹیوں خصوصاً جنتا دل متحدہ کا کھیل بگاڑ دیا۔ اسی طرح سیمانچل میں ایم آئی ایم کو 5سیٹیں ملیں لیکن اس کی موجودگی کی وجہ سے عظیم اتحاد کو توقع کے مطابق کامیابی نہیں ملی اور وہ کرسی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔ اس الیکشن میں جہاں نصف درجن وزرا کو ہار کا سامنا کرنا پڑا، 70سے زیادہ عمر کے آدھے امیدوار ہار گئے، محفوظ نشستوں پر این ڈی اے کا پلڑا بھاری رہا تو اسمبلی میں مسلم ممبران کی تعداد ایک تہائی کم ہوگئی۔ بڑے چہرے اور قدآور لیڈروں کو بھی شکست ہوئی تو سب سے تجربہ کار اور بزرگ جتن رام مانجھی اور برجیندر پرساد(74سال) جیت گئے۔ 50 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے بڑی جیت بھی ہوئی تو 189ووٹوں سے چھوٹی جیت بھی۔ صرف 25سال کے امرجیت کشواہا بھی جیتے تو عظیم اتحاد میں ڈپٹی وزیراعلیٰ کے عہدہ کی مانگ کرنے والے مکیش سہنی اپنی سیٹ بھی نہیں بچاسکے۔ نتائج کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ بڑی تعداد میں کروڑپتی اور داغدار امیدوار کامیاب ہوئے۔ اکثریت حاصل ہونے کے بعد پھر سے این ڈی اے کی حکومت تو بن جائے گی لیکن اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج الیکشن میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل اور بے روزگاری کو دور کرنا ہوگا جس سے بہار کی بڑی آبادی خصوصاً مزدور پیشہ لاک ڈاؤن کے بعد ہی سے پریشان ہے۔
[email protected]
- Business & Economy
- Regional
- Delhi NCR
- Education & Career
- Health, Science, Technology & Environment
- National
- Opinion & Editorial
- Politics
بہار: نئی سرکار کے چیلنجز
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS