ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کسی ایک ملک کے لیے باعث تشویش نہیں ہیں، یہ پوری دنیا کے لیے تشویش کی وجہ ہیں اور اس لیے اس سے پوری دنیا کو متحدہ طور پر نمٹنا چاہیے۔ اس معاملے میں کسی ملک نے دنیا کے مفاد پر اپنے مفاد کو ترجیح دی تو پھر اس کی ساکھ برقرار نہیں رہے گی، امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ باتیں سمجھانا مشکل تھا۔ ان کے لیے صحیح وہی ہوتا تھا جسے وہ صحیح مانتے تھے، البتہ جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران یہ بات کہی تھی کہ وہ کن ایشوز پر توجہ دیں گے، ٹرمپ کے کن فیصلوں کو پلٹنے کا کام کریں گے، چنانچہ امریکہ کا صدر بننے کے بعد وہ وعدوں کو پورا کر رہے ہیں۔ توقع کے عین مطابق، بائیڈن نے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے ’پیرس کلائمیٹ ڈیل 2015‘ میں امریکہ کی دوبارہ شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے یہ امید بندھی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے دنیا کو بچانے کے اقدامات میں پھر تیزی آئے گی اور یہ جزائر مارشل اور مالدیپ جیسے ملکوں کے لیے راحت کی بات ہوگی، کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے درجۂ حرارت میں مسلسل اضافے کا خدشہ ہے۔ اس سے گلیشیئرس پگھلیں گے، سطح سمندر میں اضافہ ہوگا۔ یہ اضافہ دنیا کے کئی علاقوں میں خشک سالی تو کئی علاقوں میں سیلاب کی وجہ بنے گا۔ اشیائے خوردنی کی پیداوار مشکل ہو جائے گی، اس کی وجہ سے غذاکی فراہمی مشکل سے مشکل ہوتی چلی جائے گی۔ یہی نہیں، ایک سے زیادہ ممالک زیر آب آجائیں گے۔ ان ملکوں میں جزائر مارشل اور مالدیپ وغیرہ شامل ہیں۔ جزائر مارشل جس علاقے میں واقع ہے، وہاں سطح سمندر میں سالانہ 8 سے 10 ملی میٹر کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اضافہ عالمی اوسط سے تین گنا زیادہ تیز ہے۔ ایسی صورت میں جزائر مارشل کے لوگوں کے لیے ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کو روکنے کے لیے کام کرنے کی کیا اہمیت ہوگی، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح ماحولیاتی تبدیلی پر کام کرنے کی اہمیت مالدیپ کے لوگوں کے لیے بھی بہت ہے۔ محمد نشید نے دنیا کو اپنی مجبوری دکھانے کے لیے ہی مالدیپ کا صدر رہتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی پر پانی کے نیچے کانفرنس کی تھی۔ اصل میں وہ بتانا چاہتے تھے کہ دنیا نے ماحولیاتی تبدیلی پر توجہ نہ دی تو ایک دن مالدیپ زیر آب آجائے گا، کیونکہ اس کے 80 فیصد علاقے سطح سمندر سے صرف 3.2 فٹ ہی اوپر ہیں۔
امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے بجا طور پر متنبہ کیا ہے کہ ’ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا کی بقا کو درپیش انتہائی سنگین خطرہ ہیں جن کے حل پر فوری توجہ دینا ضروری ہے۔‘میونخ میں ہونے والی ورچوئل سیکورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ ’اگر ہم اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکام ہو گئے تو اس کی قیمت ہم سب کو ادا کرنی ہو گی۔‘امریکی صدر کی اس بات سے عدم اتفاق کی گنجائش نہیں ہے کہ ’ہمیں فوری طور پر آلودگی کے اخراج کی روک تھام کے لیے جارحانہ حکمت عملی اپنانی ہو گی اور اپنے اہداف کو پورا کرنے اور انہیں بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کو جواب دہ بنانا ہو گا۔۔۔۔ اسی لیے صدر کے طور پر میں نے فوری طور پر پیرس ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شرکت کا فیصلہ کیا ہے اور آج امریکہ ایک بار پھر باقاعدہ طور پر پیرس ماحولیاتی معاہدے میں، جسے مرتب کرنے میں بھی امریکہ کی کوششیں شامل تھیں، شمولیت اختیار کر رہا ہے۔‘یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ 2017 میں ڈونالڈ ٹرمپ نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کا یہ فیصلہ امریکہ کے اقتصادی مفاد میں ہے۔ ٹرمپ کا فیصلہ چونکانے والا نہیں تھا، وہ اکثر اقتصادی فائدے کے مدنظر ہی فیصلے کیا کرتے تھے، البتہ بائیڈن سمجھ سکتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی پر انسانوں نے ابھی توجہ نہیں دی تو کچھ دہائیوں کے بعد وہ اس پر توجہ دینا بھی چاہیں گے تو دے نہیں پائیں گے، اس وقت ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنا انسانوں کے بس کی بات نہیں ہوگی۔ یہ چننے کا وقت آج ہے کہ انسانوں کی جانوں کی قیمت پر ترقی حاصل کی جائے یا انسانوں کے تحفظ کے ساتھ، کیونکہ انسانوں کا تحفظ اور ماحولیات کا تحفظ دو الگ چیزیں نہیں ہیں۔ ماحولیات پر توجہ دی جائے گی تو یہ انسانوں کی فلاح کے لیے ہی ہوگی، کیونکہ ماحولیات ٹھیک رہے گی تو انسان بھی ٹھیک رہیں گے، صحتمند اور متفکرات سے پاک رہیں گے۔ یہ واقعی خوشی کی بات ہے کہ امریکہ کو جو بائیڈن جیسا صدر ملا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے واقف ہے۔
[email protected]
بائیڈن کا مثبت فیصلہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS