دنیاکا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جس کے لیے زراعت کی اہمیت نہ ہو اور جس ملک کے لیے زراعت کی اہمیت ہوگی، اس کے لیے کسانوں کی بھی اہمیت ہوگی۔ ہندوستان کی آبادی میں تقریباً نصف لوگ زراعت یعنی کھیتی کسانی سے وابستہ ہیں۔ کوئی بھی سرکار انہیں نظرانداز کرکے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ماضی میں ’جے جوان، جے کسان‘ کا نعرہ اسی لیے دیا گیا تھا تاکہ جوانوں کے ساتھ کسانوں کی اہمیت بتائی جا سکے۔ موجودہ مودی سرکار بھی یہ کہتی رہی ہے کہ وہ کسانوں کی آمدنی دو گنی کرنا چاہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ زرعی اصلاحات کے قوانین کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے لائے گئے ہیں، البتہ کسان سرکار کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔
زرعی اصلاحات کے قوانین کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو ایسا لگتا ہے کہ یہ قوانین کسان مخالف ہیں۔ ان کے نفاذ سے ان کی حالت بہار کے کسانوں جیسی ہو جائے گی۔ وہ سرکار سے اپنے مطالبات پورا کروانا چاہتے ہیں تو سرکار انہیں سمجھانا چاہتی ہے کہ زرعی قوانین کو سمجھیں مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ قانون کو سمجھ چکے ہیں۔ اسی لیے اپنے مطالبات پورے کروانے پر اڑے ہوئے ہیں۔ اپنے مطالبات پورے کروانے کے لیے ہی انہوں نے آج ’بھارت بند‘ کیا تھا۔ اس بند کے بارے میں خبر یہ ہے کہ کہیں جزوی طور پر تو کہیں پوری طرح کامیاب رہا لیکن کسانوں کا دعویٰ ہے کہ ملک کی25 ریاستوں میں سے 10 ہزار جگہوں پر بند کا اثر نظر آیا۔ اگر اس دعوے پر شبہات کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے تو اس سے اس بات کی نفی ہو جاتی ہے کہ زرعی قوانین کے خلاف پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش کے ہی کسان مظاہرہ کر رہے ہیں، ملک کے دیگر حصوں کے کسان مظاہرے کا حصہ نہیں ہیں۔
کسانوں کے ’بھارت بند‘ پر کئی پارٹیوں کے لیڈروں نے واضح موقف کا اظہار کیا۔ سی اے اے اور این آر سی مظاہرین کی حمایت میں جیسے وہ تذبذب میں مبتلا نظر آئے تھے ویسے اس معاملے میں نظر نہیں آئے۔ اس سے یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ جاتی کہ کسانوں کا ایشو لیڈروں کے لیے اتنا اہم کیوں ہے مگر یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے کہ پچھلی حکومتوں نے کسانوں کے لیے کیا کارہائے نمایاں انجام دیے؟ وہ کسانوں کا اتنا ہی خیال رکھ رہی تھیں تو بڑی تعداد میں کسان خودکشی کرنے پر مجبور کیوں ہوتے تھے؟ خودکشی کو ایک سنگین مسئلہ سمجھتے ہوئے کسانوں کی دشواریوں کو حل کرنے کی کوششوں میں کامیابی نہ ملنے کی وجوہات کیا رہیں؟ ان سوالوں کے جواب تبھی سمجھ میں آپائیں گے جب یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ سنگین مسئلوں پر سیاست کیوں کی جاتی ہے؟ اس لیے کسانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کا آندولن کہیں سیاست کی نذر نہ ہو جائے۔ وہ حکومت سے ’ہاں‘ یا ’نا‘ میں بات کرنے کے بجائے ’ہاں‘ یا ’نا‘ کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کریں۔ حکومت بھی یہ سمجھے کہ ان داتا کو اگر شکایت ہے، اگر اسے لگتا ہے کہ زرعی اصلاحات کے قوانین کسان مخالف ہیں تو انہیں یہ سمجھائے کہ اصل میں اس کی منشا کیا ہے، یہ قوانین اس ملک کے لیے ضروری کیوں ہیں۔
9 دسمبر کو وزیر زراعت نریندر تومر سے کسانوں کی چھٹے دور کی گفتگو ہونی ہے لیکن آج کسانوں کے ایک وفد نے وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات امید کی ایک کرن کی طرح تو ہے مگر اس سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا مناسب نہیں ۔ کسان ’ہاں‘ یا ’نا‘ میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ سوال یہ ہے کہ درمیان کا راستہ کیوں نہیں بچا ہے؟ سرکار اگر اس پر بضد رہے گی کہ یہ قوانین کسانوں کی فلاح کے لیے ہیں، یہ واپس نہیں لیے جائیں گے اور کسان اس بات پر اڑے رہیں گے کہ یہ قوانین کسانوں کی بہبود کے لیے نہیں ہیں، یہ جوں کا توں واپس لیے جائیں تو مسئلے کا حل کیسے نکلے گا؟
یہ صورت حال واقعی پریشان کن ہے، کیونکہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں زراعت نے ہی ملک کی اقتصادیات کو سنبھالا تھا۔ کسانوں کا مظاہرہ اگر ذرا کھنچ گیا تو اشیائے خوردنی مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ اس کا اثر عام لوگوں پر پڑے گا۔ اس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، کیونکہ کورونا کی وجہ سے کئی لوگوں کو نوکریاں گنوانی پڑی ہیں۔ چند لفظوں میں اگر کہا جائے تو کسانوں کو منانے میں سرکار جتنی جلدی کامیاب ہوگی، یہ ملک کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
[email protected]
بھارت بند‘ اور کسان’
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS