راجدھانی دہلی میں آلودگی کاحال ’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘ کا مصداق ہوگیا ہے۔جتنے قدم اٹھائے جاتے ہیں، تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ اب تو جرمانہ اورسزا کے لیے آرڈی نینس کی شکل میں قانون بھی بنادیا گیالیکن سوال اب بھی وہی ہے کہ کیا اس سے راجدھانی کی فضائی آلودگی میں کمی آجائے گی؟اور مسئلہ حل ہوجائے گا ؟شاید اس کا جواب یقین کے ساتھ کوئی نہ دے سکے کیونکہ آلودگی کے خلاف نہ تو اقدامات نئے ہیں اورنہ جرمانے کا قانون۔جب بھی آلودگی بڑھتی ہے، اس پر قابو پانے کے لیے نئی نئی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں اورنئے نئے علاج تلاش کیے جاتے ہیں لیکن علاج اورتدابیر اپنی جگہ رہتی ہیں اور آلودگی اپنی رفتار سے بڑھتی ہے۔ اس وقت بھی قومی راجدھانی میں فضائی آلودگی یا ایئرکوالٹی کی سطح بہت خراب ہے۔ اتنی خراب ہے کہ مرکزی حکومت کو آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف سخت آرڈی نینس جاری کرنا پڑا۔ 30اکتوبر کو 12 بجے دن میں جب فضائی کوالٹی کی سطح ماپی گئی تو بہت خراب زمرے میں 381 درج کی گئی۔راجدھانی میں ایئر کوالٹی کی سطح ہر دن ماپی جاتی ہے اور تھوڑے بہت فرق کے ساتھ روزانہ صورت حال خراب ہی رہتی ہے۔یہ مسئلہ دوچار دنوں سے نہیں پیدا ہوا ہے بلکہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے یہی حالت ہے۔اتنے طویل عرصے تک فضائی آلودگی کی خطرناک سطح رہنا بیمار کیا صحت مند لوگوں کے لیے بھی ٹھیک نہیں ہے۔ بیمار لوگوں کو اگر سانس لینے میں پریشانی ہورہی ہے اوران کے لیے دیگر مسائل پیدا ہورہے ہیں تو صحت مند لوگوںکو بیماریاں ہورہی ہیں ۔
فضائی آلودگی کا مسئلہ صرف دہلی میں نہیں ہے بلکہ ملک کے کئی اورشہر وںمیںیہ مسئلہ ہے۔ اسی سال مئی میں ڈبلیو ایچ اونے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کے ٹاپ 20آلودہ شہروں میںنہ صرف13 ہندوستان کے ہیں بلکہ ٹاپ 10میں 9 شہر بھی ہندوستان کے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ دنیا کے ہر 10میں سے 9 لوگ کافی آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں اورہر سال آلودگی سے دنیا بھر میں 70 لاکھ لوگوں کی موت ہوجاتی ہے۔یہ اوراس طرح کی دیگر رپورٹوں کے باوجود لوگ اس سے بے پرواہ ہیں۔حالانکہ دنیا کے متعدد ممالک میں آلودگی پر قابوپانے کی کوششیں کی گئیںجن میں کچھ کو کامیابی ملی اورکچھ ابھی بھی کامیابی کے لیے ہاتھ پیر ماررہے ہیں۔جن ممالک میں آلودگی کی صورت حال بدسے بدتر ہورہی ہے، ان میں وطن عزیز ہندوستان بھی ہے۔ایسی بات نہیں ہے کہ سرکار خاموش رہتی ہے۔وہ اس پر قابو پانے کے لیے اپنا کام کرتی رہتی ہے لیکن جس رفتار سے وہ قدم اٹھاتی ہے، اس سے زیادہ رفتار سے آلودگی پھیلانے کا کام ہوتاہے۔اسی لیے حالات قابو میں آنے کے بجائے بگڑتے جاتے ہیں۔ آلودگی پھیلانے کے ذرائع کا علم سبھی کو ہے۔ سرکار کو علم ہے کہ کہاں سے اورکن لوگوں کے ذریعہ آلودگی پھیل رہی ہے لیکن سیاسی مفادات کی وجہ سے نہ تو ان کا نام لیا جاتا ہے اورنہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے۔ بلکہ اسے سیاسی مسئلہ بناکر سیاسی پارٹیاں اورحکومتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتی رہتی ہیں، جس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔
سب کو معلوم ہے کہ ہرسال سردی شروع ہوتے ہی آلودگی کا خطرناک مسئلہ شہروں میں پیدا ہونے لگتا ہے۔خریف کی فصل کٹنے کے بعد کسان بڑے پیمانے پر پرالی جلاتے ہیں۔ ایک تو ہوا میں نمی ہوتی ہے اوپر سے فضا میںدھواں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے آلودگی کی سطح کافی بڑھ جاتی ہے۔ زیادہ دن نہیں ہوئے جب راجدھانی میں فضائی آلودگی پر دہلی سرکار اورمرکزی حکومت کے درمیان سیاست ہورہی تھی۔ مرکز کی طرف سے یہ کہا جارہا تھا کہ دہلی کی فضائی آلودگی میں پرالی جلانے کاحصہ صرف 4 فیصد ہے جبکہ دہلی سرکار کہہ رہی تھی کہ 15 فیصد اور 30 اکتوبر کو دہلی میں فضائی کوالٹی مانیٹرنگ ایجنسی نے بتایا کہ 29 اکتوبر کو پرالی جلانے کا حصہ 36 تھا۔ غرضیکہ حالات خطرناک ہیں اوران پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔لیکن مسئلہ یہی ہے کہ یہ کیسے ہو؟ اورراجدھانی کے لوگوں کو اس سے راحت کیسے ملے ؟
[email protected]
فضائی آلودگی : مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواکی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS