تیز ہوتی کسان تحریک

0

 ہرگزرتے دن کے ساتھ کسانوں کی تحریک تیز ہوتی جارہی ہے۔ 17دنوں سے موسم کی سختی اور حالات کا جبر سہنے والے یہ کسان 11لاشوں کو کاندھا دینے کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔کسانوں کی اس تحریک کو حکومت نے کمزور کرنے کی ہرکوشش کرکے دیکھ لی ہے۔ ہریانہ کی20کسان تنظیموں سے اپنے حق میں بیان دلوائے اور نئے زرعی قوانین کو کسانوںکا نجات دہندہ بتایا۔ مضحکہ خیز مذاکرات میں الجھانے کی بھونڈی کوشش میں ناکامی کے بعد محنت کشوں کی اس جدوجہد کو علیحدگی پسندی، ملک و قوم مخالف اور نہ جانے کیسے کیسے نام دیے گئے لیکن کسانوں کے استقلال میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اب کسانوں نے اپنی اس تحریک کو تیز کرتے ہوئے آج دہلی اور مغربی اترپردیش کے کئی ٹول پلازہ کو چنگی سے ’آزاد ‘کرانے کے اقدام کا آغاز کیا لیکن فی الوقت پولیس نے اسے ناکام بنادیا۔ کسانوں نے 14دسمبر کو ملک گیر احتجاج اور مظاہرہ کا بھی اعلان کیاہے ۔ملک کے ہر ضلع کے ہیڈکوارٹر پر کسان علامتی دھرنا دیں گے اوراحتجاج و مظاہرہ کریں گے ۔
کسانوں کا تیوربتارہاہے کہ اب یہ تحریک آر پار کی لڑائی میں بدل گئی ہے اور کسان اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ ادھر حکومت بھی قانون واپس لے کر اپنی جگ ہنسائی کا سامان نہیں کرنا چاہتی ہے، ایسے میں یہ تعطل طول پکڑسکتا ہے جس کے نتائج معیشت کے ساتھ ساتھ ملکی معاشرت پر خطرناک ہوسکتے ہیں ۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ’نئے زرعی قوانین ‘ حکومت کے ’اصلاحی پیکیج ‘کا ایک حصہ ہیں۔ان اصلاحی اقدامات کے ذریعہ وہ زراعت کو روایتی نظام سے نکال کر ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا چاہتی ہے جہاں کسانوں کو اپنی پیداوار کی قیمت طے کرنے کاحق ہو لیکن کسان ان تینوں قانون کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آج بھی وزیراعظم نریندر مودی نے یہی دوہرایا ہے۔ فیڈریشن آف انڈین چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری(ایف آئی سی سی آئی) کے 93 ویں سالانہ جنرل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ملک کے زرعی شعبے کو مضبوط بنانے کیلئے گزشتہ برسوں سے تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ اس سے ہندوستان کا زرعی شعبہ پہلے کی نسبت زیادہ متحرک ہوگیا ہے۔ آج ہندوستان کے کسانوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی فصلوں کو منڈیوں کے باہر بھی بیچ دیں۔ منڈیوں کو جدید بنایا جارہا ہے، جس سے کسانوں کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر فصلوں کو فروخت کرنے اور خریدنے کا اختیار مل گیا ہے۔نئے زرعی قوانین کی افادیت بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان تمام کوششوں کا مقصد کاشتکاروں کی آمدنی کو بڑھانا ہے۔ یہ زراعت میں نئی اصلاحات ہیں اوران سے کسانوں کو نئی منڈیاں، نئے متبادل، نئی ٹیکنالوجی ملے گی،ملک کے کولڈ اسٹوریج انفرا اسٹرکچر کو جدید نظام دیاجائے گا ۔زرعی شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری ہوگی اوران سب کا فائدہ کسانوں کو ملے گا۔
لیکن کسان حکومت کی جانب سے بتائے جانے والے ان فوائد کو گمراہ کن قرار دے رہے ہیں۔ بظاہر کسانوں کا موقف درست نظرآرہاہے کیوں کہ اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ ان قوانین کے اطلاق کے بعد منڈی پر کارپوریٹ کا کنٹرول ہوجائے گا اور آج اپنی مرضی سے فصل کی قیمت طے کرنے کا سنہرا خواب کل سرمایہ داروں اور کارپوریٹ کی طے کردہ قیمت پربیچنے کی مجبوری میں بدل جائے گا۔نئے قانون میں اجناس کیلئے حکومت کی مقرر کردہ کم از کم سپورٹ قیمت کے نئے قوانین میں شامل نہ ہونے سے کسان مزید غربت میں ڈوبتے چلے جائیں گے، منڈی کو کنٹرول کرنے والے اجارہ دار پیداواری لاگت سے بھی کم قیمت پر اجناس بیچنے پر کسانوں کو مجبور کریں گے۔ فصل بیچنے کیلئے جس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا بلندبانگ دعویٰ کیاجارہا ہے وہ سٹہ بازی کی ہی دوسری شکل ہے جسے حکومت قانونی تحفظ فراہم کرکے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کے طور پر دے رہی ہے ۔ملک کے زرعی شعبہ کو بہتربنانے کیلئے گزشتہ چند برسوں میں جو اقدامات کیے گئے ہیںان کے تباہ کن نتائج بھی کسانوں کے سامنے ہیں ۔ ملک میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ہر چند کہ حکومت نے2018کے بعد سے کسانوں کی خودکشی کا الگ سے کوئی ڈاٹا جاری نہیں کیا ہے لیکن قرضوں کی عدم ادائیگی، فصل کی قیمت نہ ملنے، پیداواری لاگت میں ہوش ربا اضافہ اور دیگر وجوہات کی بناپر بڑی تعداد میں کسان خود کو ہلاک کررہے ہیں۔ این سی آر بی نے حال میں حادثاتی اموات اور خودکشی پر2019کی جو رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق سال2019 میں10281کسانوں نے خودکشی کی ہے ۔یعنی ہندوستان میں ہر مہینہ تقریباً ایک ہزار کسان خودکشی کررہاہے ۔ ہائیڈرو کاربن اور میتھین گیس کی تلاش کے نام پر زرعی زمینوں کے خوفناک استحصال کی وجہ سے جنوبی ہندوستان میں کسانوں کی حالت انتہائی ابتر ہوچکی ہے اور وہ دھیرے دھیرے اپنی زمینوں سے محروم ہورہے ہیں۔ یہ زرعی زمینیں بڑے بڑے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو منتقل ہورہی ہیں۔ ایسے میںنئے زرعی قوانین کے تعلق سے کسانوں کے ان خدشات کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔ اگر حکومت نے جلد ہی کسانوں کے مطالبات پر فیصلہ نہیں لیاتوجس طرح سے اس تحریک میں شدت آرہی ہے، اس سے اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ کوئی اور رخ بھی لے سکتی ہے جس سے ملک کوبچانا ضروری ہے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS