تحقیق و انصاف کے نام پر جبری ہتھکنڈوں کا جواز تلاش کرنا کوئی نیا حربہ نہیں، مگر جب کسی ریاستی ادارے کو سیاسی انتقام کیلئے بے دریغ استعمال کیا جائے تو جمہوریت کی روح ہی مجروح ہوجاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے طریقہ کار پر مسلسل سوالیہ نشان لگائے جا رہے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں جو الزام لگا رہی تھیں، اب اعداد و شمار بھی انہی شبہات کی تصدیق کر رہے ہیں۔
یہ محض الزام نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں حکومت کے اپنے اعترافات سے ثابت ہوتا ہے کہ ای ڈی کا نشانہ خاص طور پر اپوزیشن رہنماؤں پر مرکوز ہے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ پنکج چودھری نے پارلیمنٹ میں جو اعداد و شمار پیش کیے وہ نہ صرف حیران کن ہیں بلکہ ایک بڑے جمہوری بحران کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں سیاستدانوں کے خلاف 193 مقدمات درج کیے گئے، مگر ان میں سے صرف دو میں سزا سنائی گئی۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ زیادہ تر کارروائیاں محض سیاسی دباؤ ڈالنے اور مخالفین کو خاموش کرنے کیلئے کی گئی تھیں؟
اگر ان اعداد و شمار کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو جو تصویر ابھرتی ہے، وہ نہایت سنگین ہے۔ ای ڈی کی کارروائیوں کا رخ ہمیشہ اپوزیشن کی طرف کیوں مڑتا ہے؟ جن سیاستدانوں پر الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اگر وہ حکومتی جماعت میں شامل ہوجائیں تو ان کے خلاف کارروائیاں یکدم ماند کیوں پڑ جاتی ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو جمہوری حلقوں میں گونج رہے ہیں۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ای ڈی کے چھاپے ہمیشہ انتخابات سے قبل یا کسی اہم سیاسی موڑ پر تیز ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ محض حسن اتفاق ہے؟ اگر واقعی یہ ادارہ غیرجانبدار ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ حکومت کے حامی سیاستدان ہمیشہ الزامات سے بری الذمہ رہتے، جبکہ اپوزیشن رہنماؤں کو طویل تحقیقات، بار بار طلبیوں اور ذرائع ابلاغ میں بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا؟
جمہوریت میں ادارے انصاف کے قیام کے ضامن ہوتے ہیں، مگر جب یہی ادارے جبر کا آلہ کار بن جائیں تو نظام اپنی اصل روح کھو دیتا ہے۔ ای ڈی کے معاملات میں جو سب سے خطرناک پہلو سامنے آ رہا ہے، وہ یہی ہے کہ اس کا مقصد انصاف کے قیام کے بجائے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا اور ان کے خلاف خوف و ہراس پھیلانا ہے۔
اگر ای ڈی واقعی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں کام کر رہی ہوتی تو مقدمات میں سزا کی شرح اتنی کم نہ ہوتی۔ جب 193 مقدمات میں سے صرف دو میں سزا سنائی گئی تو اس کا مطلب واضح ہے کہ یا تو یہ مقدمات کمزور شواہد پر مبنی تھے یا ان کا مقصد محض سیاسی دباؤ ڈالنا تھا۔ اگر حکومت واقعی بدعنوانی کے خاتمے میں سنجیدہ ہوتی تو ان تحقیقات کا نتیجہ ٹھوس عدالتی فیصلوں کی صورت میں سامنے آتا نہ کہ میڈیا ٹرائل اور سیاسی انتقام کے سائے میں۔
ای ڈی کی غیر متوازن کارروائیوں کے سنگین اثرات نہ صرف سیاست بلکہ ملک کے جمہوری ڈھانچے پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو بے بنیاد الزامات کے ذریعے کچلنے کا عمل صرف ایک حکومت کا حربہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسے خطرناک رجحان کو جنم دے رہا ہے جس میں ریاستی ادارے اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔
جمہوری معاشروں میں اداروں کی غیر جانبداری اور شفافیت ہی ان کی سب سے بڑی قوت ہوتی ہے۔ اگر عوام کو یہ یقین ہو جائے کہ احتسابی ادارے مخصوص ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں تو یہ نہ صرف عوامی اعتماد کی تباہی کا باعث بنے گا بلکہ مستقبل میں ملک کی جمہوری اساس کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔
یہ معاملہ محض اپوزیشن کی شکایات تک محدود نہیں رہا بلکہ اب عام شہری بھی اس صورتحال کو بغور دیکھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ای ڈی اپنی غیر جانبداری کو ثابت کر پائے گا یا ہمیشہ حکومت وقت کیلئے ایک شکنجہ بنا رہے گا؟ اگر یہی رجحان جاری رہا تو کل کو کوئی بھی حکومت آ کر اسی ماڈل کو اپنائے گی اور احتساب کا نظام محض انتقامی سیاست کا کھیل بن کر رہ جائے گا۔
یہ وقت ہے کہ عدلیہ اور دیگر آزاد ادارے اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں۔ اگر ای ڈی کو واقعی بدعنوانی کے خاتمے کیلئے استعمال کرنا ہے تو اسے شفافیت، غیر جانبداری اور آئین کی مکمل پاسداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر یہ ادارہ ایک ایسے ہتھیار میں تبدیل ہوجائے گا جو صرف اقتدار کی ہوس کی تسکین کیلئے استعمال ہوتا ہے اور جمہوری اقدار کو پامال کرتا رہے گا۔
آج ہندوستان جس مقام پر کھڑا ہے وہاں محض شخصیات یا جماعتوں کا نہیں بلکہ پورے جمہوری نظام کا امتحان ہو رہا ہے۔ اگر ادارے اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے میں ناکام رہے تو عوام کا اعتماد ہمیشہ کیلئے متزلزل ہوجائے گا۔ ای ڈی جیسے اداروں کو حقیقی احتساب کیلئے کام کرنا ہوگا، نہ کہ محض ایک مخصوص سیاسی جماعت کی خدمت کیلئے۔
جمہوریت کا حسن اس کے اداروں کی شفافیت میں ہے نہ کہ ان کے طاقتور ہاتھوں میں کھلونا بن جانے میں۔ اگر آج ہم نے اس مسئلے پر آنکھیں بند کر لیں تو کل یہی ادارے ہمیں بھی اپنی گرفت میں لے سکتے ہیں۔