انتخابات میں ووٹرو ں کو اپنے حق میں ہموار کرنے کیلئے سیاسی جماعتیں طرح طرح کے وعدے کرتی ہیں۔ سماجی اور فلاحی اسکیموں کا اعلان بھی ہوتا ہے اوران اعلانات میں غریبوں اور ضرورت مندوں کیلئے کئی ساری مفت اسکیمیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انتخابات جیتنے کے بعد سیاسی جماعتیں اپنے وعدے پر کتنا کاربند ہوتی ہیں لیکن ان کے وعدوں کو اب ملک کی معیشت کیلئے خطرناک، جمہوریت، انتخابی سیاست اور اقتدار کیلئے چیلنج سمجھاجانے لگا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ سماجی فلاح کی اسکیموں اور مفت انتخابی وعدوں میں فرق ہے۔ سیاسی جماعتیں ایسے وعدے کرتے وقت یہ نہیں سوچتی ہیں کہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔ سپریم کورٹ آج بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈر ایڈووکیٹ اشونی اپادھیائے کی جانب سے دائر مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کررہا تھا۔سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کی طرف سے مفت تحائف کا وعدہ اور تقسیم ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ اس سے معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا ہے کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ’غربت‘ ایک سنگین مسئلہ ہے، مرکزی حکومت کے پاس بھوکوں کو کھانا کھلانے کا منصوبہ بھی ہے۔ لیکن معیشت کو ہونے والے نقصان اور عوامی فلاح و بہبود کے درمیان توازن قائم کرناہوگاتاکہ نقصان سے بچاجاسکے۔
چیف جسٹس این وی رمن اور جسٹس کرشنا مراری کی دو نفری بنچ نے آج اس معاملے میں تقریباً 20 منٹ تک سماعت کے بعد جو ریمارکس دیے ہیں، وہ عدالت کی نیک نیتی ظاہر کرتے ہیں لیکن ایسے کچھ سوالات بھی ہیں جن کا جواب ملنا ضروری ہے۔
ملکی معیشت ہو یا ملک کا اپنا وجود ہی کیوں نہ ہو، اس کا انحصار عوام پر ہوتا ہے۔ مضبوط معیشت اور مستحکم ملک اپنے آپ میں کوئی حقیقت نہیں ہے جب تک کہ اس کا راست تعلق عوام سے نہ ہو۔ ملک کے عوام کو اگر دو وقت کا کھانا ہی نہ ملے، روزگار عنقاہو، مہنگائی ان کے چولہے ٹھنڈے رکھے تو ایسے میں مضبوط معیشت اور مستحکم ملک کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔ چند سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنا اور پورے ملک کے غریب اور مفلس عوا م کو بھوکوں رہنے پر مجبور کرنا اس سے معیشت مستحکم نہیں کہلاسکتی ہے اور نہ ہی مستحق و پس ماندہ عوام کی سماجی اور اقتصادی بہبود کی اسکیموں کو مفت کہاجاسکتا ہے۔ایک فلاحی ریاست ہونے کی حیثیت سے ملک پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود اورا ن کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا ہر سامان مہیا کرائے، اسے کسی بھی حال میں غلط نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔خاص کر ایسے وقت میں جب حکومت سرمایہ داروں کے لاکھوں کروڑ روپے کے قرض معاف کررہی ہو اور صنعت کاروں کو اربوں کی سبسڈی دے رہی ہو تو غریب عوام پر چند ٹکوں کے صرفہ کو معیشت کیلئے نقصان دہ قرار دینے کا جواز کمزور پڑجاتا ہے اور نہ اس کا ہی کوئی جواز ہے کہ ٹیکس کی رقم غریبوں پرخرچ کی جاتی ہے کیوں کہ آج حکومت نے ٹیکس کا جو نظام نافذ کررکھا ہے، اس کے دائرہ میں ہر شخص شامل ہے۔حصہ بقدر جثہ کے عالمی اصول کے برخلاف دودھ اور دہی جیسی بنیادی چیزوں کیلئے بھی جتنا ٹیکس ایک صنعت کار اورسرمایہ دار دیتا ہے، اتنا ہی ٹیکس ملک کا یومیہ مزدور، رکشا چالک اور ایک گداگر بھی دے رہاہے۔ ہر یافت پر ٹیکس(ٹی ڈی ایس) ادا کرنے کا قانونی التزام تو اپنی جگہ موجود ہی ہے۔آج غریب سے غریب ترین آدمی کیلئے بھی بھاری ٹیکس دیے بغیر زندگی کیلئے بنیادی چیزوں کی خریداری ممکن نہیں ہے۔
حالیہ برسوں کے انتخابی وعدوں کی تکمیل پر ہونے والے خرچ اور سرمایہ داروں کے قرضوں کی معافی اور انہیں ملنے والی سبسڈی، ٹیکس میں چھوٹ وغیرہ جیسے معاملات کا موازنہ کیاجائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انتخابی وعدوں پر ہونے والے اخراجات کارپوریٹ سیکٹر کو ملنے والی سہولیات، مراعات اور سبسڈی کے مقابلے اونٹ کے منہ میں زیرہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ابھی حال کے دنوں میں ہی حکومت نے کارپوریٹ سیکٹر کے 10لاکھ کروڑ روپے کا قرض معاف کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں خواتین کو500روپے ماہانہ اور بے روزگارو ں کوملنے والے بھتہ کی مجموعی رقم کاحقیر سا حجم کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ معیشت کے نقصان کی دہائی دینے والوں کو اس سوال کا جواب ضرور دینا چاہیے کہ غریبوں کیلئے فلاحی اسکیمیں معیشت پر بوجھ اور ٹیکس کی رقم کا زیاں ہیں یا پھر کارپوریٹ سیکٹر پرفیاضی کا مظاہرہ اس کا سبب ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنایاجاناچاہیے کہ ٹیکس دہندگان کی رقم کا جائزاستعمال ہو۔ ملک کے ترقیاتی عمل اور فلاحی اسکیموں کے درمیان حد فاصل کا تعین کیاجائے اور عدالت کے مشورے کے مطابق فریقین کی کمیٹی بناکر اس معاملہ کا تصفیہ کیاجائے۔
[email protected]
معیشت اور فلاحی اسکیمیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS