معاشی غیر برابری کی صورتحال : ڈاکٹر جاوید عالم خان

0

ڈاکٹر جاوید عالم خان

5جولائی 2025کو مرکزی حکومت کے پریس انفارمیشن بیورو کے ایک بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ ہندوستان دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کے ساتھ 2022-23 میں معاشی مساوات میں عالمی سطح پر چوتھے نمبر پر ہے اور ملک کا جنی انڈیکس (Gini Index)میں اسکور 25.5 ہے جوکہ 2011-12 میں28.8تھا۔ سلواک جمہوریہ، سلووینیا اور بیلاروس معاشی مساوات میں ہندوستان سے بہتر ہیں۔ مرکزی حکومت کے مطابق ملک کی آبادی اور سماجی تنوع کو دیکھتے ہوئے ملک کیلئے ایک اہم کامیابی ہے اور موجودہ جنی انڈیکس یہ بتاتا ہے کہ ہندوستان میں معاشی ترقی کے ثمرات کو برابری سے تقسیم کیا جارہا ہے،اس کامیابی کے پیچھے غربت میں کمی، مالیاتی سہولتوں کی دستیابی اور حکومت کے رفاہی پروگراموں کے ذریعے امداد کو عوام کے ذریعے بخوبی حاصل کرنا شامل ہے۔ جنی انڈیکس ایک آسان اور بہت ہی طاقتور طریقہ کار ہے جو پیمائش کرتا ہے کہ ملکوں میں انفرادی اور گھریلو سطح پر آمدنی، دولت، اشیا اور خدمات پر اخراجات کو برابری کے ساتھ کیسے تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جنی انڈیکس میں برابری کو ماپنے کیلئے0-100کی قدر(value) کا سہارا لیا جاتا ہے، اگر جنی انڈیکس کا اسکور صفر ہے تو اس کا مطلب معاشی معاملات میں مکمل برابری ہے، وہیں اگر اسکور100ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کچھ لوگوں کے پاس تمام دولت، آمدنی اور صرف کرنے کی قوت پوری طرح سے ہے اور دوسرے لوگوں کے پاس بالکل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پر مکمل معاشی غیر برابری پائی جارہی ہے۔ جنی انڈیکس دراصل یہ بتاتا ہے کہ اگر ملک میں اس کی قدر زیادہ ہے تو اس کا مطلب معاشی مساوات میں وہ ملک غیر برابری رکھتا ہے۔
20ویں صدی میں جنی انڈیکس کی ایجاد اٹلی کے مشہور ماہر شماریات(Statistician) کارڈو جنی نے کی تھی، اس انڈیکس کو گراف کی شکل میں لورنز وکر کی مدد سے دکھایا جاتا ہے۔ یہ ایک گراف ہے جس میں کل قومی آمدنی(یا دیگر متغیر) کے مجموعی فیصد کو ان کے حصے کے سائز میں اضافے کو درجہ بندی کے ذریعے موازنہ کیا جاتا ہے اور ایک ترچھی لکیر کے ذریعے آمدنی کی تقسیم میں غیر برابری کی ڈگری کا پتا چلتا ہے۔

عالمی بینک نے اگرچہ صرفConsumption کرنے کی صلاحیت کی بنیاد پر جنی انڈیکس میں ہندوستان کے بہتر ہونے کی بات ضرور کی ہے لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اعدادوشمار کی دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے غیر برابری کی شرح کا صحیح طریقے سے تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ عالمی بینک کے غریبی اور برابری کے تازہ شمارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت کو صرف یا قوت خرید کے اعدادوشمار کو غیر برابری ماپنے کیلئے بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔ عالمی غیر برابری پر اعدادوشمار جمع کرنے والی یونٹWorld Bank Inequality Database نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ آمدنی کی بنیاد پر غیر برابری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور2004میں جنی انڈیکس 52 تھا جو بڑھ کر 2023 میں62ہوگیا، اسی طرح سے اجرت کے معاملے میں بھی غیر برابری میں اضافہ ہوا ہے۔ اوپر کے10فیصد لوگوں کی اوسط کمائی نیچے10فیصد لوگوں کی آمدنی سے13گنا زیادہ ہے۔

مرکزی حکومت نے اپنے بیانیہ اعدادوشمار کی محدودیت کے بارے میں کچھ بھی ذکر نہیں کیا ہے جبکہ عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر اس کا ذکر کیا ہے۔
غیر برابری کو ماپنے کے لیے کئی ممالک آمدنی کا سروے کرتے ہیں جبکہ ہندوستان آمدنی کے سروے کے بجائے صرف کی قوت پر اعدادوشمار جمع کرتا ہے۔ غیر برابری کو ماپنے کے معاملے میں آمدنی اور قوت خرید یا صرف کے درمیان کافی فرق ہوتا ہے۔جیسے ہی لوگ زیادہ کمائی کرتے ہیں، ان کی اضافی آمدنی کا زیادہ تر حصہ بچت کی شکل میں رکھا جاتا ہے، اسی لیے صرف کے اعدادوشمار غیر برابری کی جنی انڈیکس کا تخمینہ سوسائٹی میں برابری کا صحیح سے اندازہ نہیں کرپاتا ہے۔

ماہر معاشیات انمول سومانچی کے مطابق ہندوستان میں صرف کی بنیاد پر جنی انڈیکس کی قدر کو دوسرے ملکوں کی آمدنی پر منحصر جنی کی قدر سے موازنہ کرنا بالکل ٹھیک بات نہیں ہے۔ مختصراً صرف کی بنیاد پر جنی انڈیکس غیر برابری کا تخمینہ مکمل طور سے نہیں کرپاتا ہے اور اس کا موازنہ دوسرے ممالک سے کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ بات کافی حد تک لوگوں کو معلوم ہے کہ اوپر کے 10 فیصد اور نیچے کے 10 فیصد کی آمدنی کے درمیان غیر برابری کا خلا بڑھتا جارہا ہے اور یہ خیال کیا جارہا ہے کہ ملک کے اندر معاشی حالات بہتر ہورہے ہیں۔

اس وقت غیر برابری کی پیمائش کیلئے جو طریقہ کار اپنایا جارہا ہے، وہ بڑھتے ہوئے خلا کو پوری طرح سے اعدادوشمار کی شکل میں لانے میں ناکام ہیں کیونکہ آمدنی اور صرف سے متعلق جو بھی سروے ہورہے ہیں، وہ امیروں کی آمدنی سے متعلق اعدادوشمار کو اکٹھا کرنے میں ناکام ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے سروے میں امیروں کی شمولیت غریبوں کے مقابلے بتدریج گرتی جارہی ہے۔ دوسری طرف اس طرح کے سروے میں جو سیمپل لیے جاتے ہیں، اس میں غریبوں کے شامل ہونے کے نمبرات بہت کم ہیں جس کی وجہ سے صحیح تخمینہ لگانا نہایت مشکل ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر سروے غیر برابری کا اندازہ لگانے کیلئے اوپر کی ایک فیصد آبادی کو سروے میں شامل کرتے ہیں جس کی وجہ سے غیر برابری کی صحیح تصویر سامنے نہیں آتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ90فیصد کی آبادی کے درمیان غیر برابری نہیں ہے۔ کئی سارے ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہندوستان کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور دوسرے یوروپی ممالک میں بھی غیر برابری کا اندازہ لگانے کیلئے جو سروے کیے جارہے ہیں، ان میں غیر برابری کے اعدادوشمار پوری طرح سے اکٹھا نہیں کیے جاسکے ہیں۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، اس کے مطابق عالمی غیر برابری لیب کے جنی انڈیکس سے پتا چلتا ہے کہ ہندوستان میں غیر برابری میں اضافہ ہوا ہے، اس تنظیم میں غیر برابری کے خلا کو بہتر طریقے سے سمجھنے کیلئے انکم ٹیکس کے اعدادوشمار کا تجزیہ کیا ہے۔

جنی انڈیکس کے ذریعے غیر برابری کی پیمائش کے بارے میں کئی ماہر معاشیات نے تنقید بھی کی ہے، اس سلسلے میں چلی کے ایک ماہر معاشیات کا یہ کہنا ہے کہ غیر برابری کو بہتر طریقے سے سمجھنے کیلئے نچلی سطح پر زندگی گزار رہے 50 فیصد لوگوں کی آمدنی یا دولت کو اوپر کی سطح پر زندگی گزار رہے 10فیصد کے لوگوں کی آمدنی سے موازنہ کرنا چاہیے، اس کے لیے سروے کے بجائے انکم ٹیکس سے متعلق اعدادوشمار کا تجزیہ کیا جانا چاہیے اور تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عالمی سطح پر آمدنی میں غیر برابری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اوپر کی ایک فیصد آبادی نچلی سطح کے50فیصد لوگوں سے زیادہ کمائی کررہی ہے۔ لہٰذا ہندوستان اور دوسرے ممالک کو غیر برابری کا صحیح اندازہ لگانے اور اس کو کم کرنے کیلئے صحیح اعدادوشمار اکٹھا کرنا چاہیے تاکہ اس کیلئے بہتر پالیسی سازی کی جاسکے کیونکہ بڑھتی ہوئی غیر برابری نہ صرف سماج کے اندر تناؤ پیدا کرتی ہے بلکہ معاشی نمو کو پائیدار بنانے کیلئے ایک بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ اس سلسلے میں مرکزی حکومت نے ماہر معاشیات سرجیت سنگھ بھلا کے زیر صدارت ایک ایکسپرٹ گروپ کا قیام کیا ہے جو پہلی بار سرکاری سطح پر ہندوستان میں گھریلو آمدنی پر اعدادوشمار جمع کرنے کیلئے سروے کے طریقہ کار پر سفارش پیش کرے گا۔ حکومت کے ذریعے لیا گیا یہ قدم قابل ستائش ہے مگر یہ سروے کب تک مکمل کیا جائے گا، حکومت کو اس کی حتمی تاریخ بھی طے کرنی چاہیے، اس کے علاوہ سروے کے اعدادوشمار کو بغیر چھیڑ چھاڑ کے حکومت کو عوام کے سامنے دستیاب کرانا چاہیے۔

(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی کے ڈائریکٹر ہیں )
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS